عليه وسلم فيه عددا معينا ؛ بل كان هو - صلى اللّٰه عليه وسلم - لا يزيد في رمضان ولا فی غيره على ثلاث عشرة ركعة لكن كان يطيل الركعات فلما جمعهم عمر على أبي بن كعب كان يصلي بهم عشرين ركعة ثم يوتر بثلاث وكان يخفف القراءة بقدر ما زاد من الركعات ... لان ذالک اخف علی المامومین من تطویل الرکعۃ الواحدۃ ثم کان طائفۃ من السلف یقومون باربعین رکعۃ ویوترون بثلاث وآخرون بست وثلاثین واوتروا بثلاث وھذا کلہ حسن سائغ ومن ظن أن قيام رمضان فيه عدد معین موقت عن النبي صلى اللّٰه عليه وسلم لا يزاد ولا ينقص فقد أخطأ) اھ (ج 3 ص 193)
”ابن تیمیہ حنبلی نے فرمایا:”جان لے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح میں کوئی معین عدد مقرر نہیں فرمایا بلکہ رمضان اور غیر رمضان میں تیرہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے“لیکن رکعت کو طویل کرتے تھے پس جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ابی رضی اللہ عنہ پر جمع کردیا تو وہ انہیں بیس رکعت پڑھاتے تھے پھر تین وتر پڑھاتے اور قراءۃ اتنی ہلکی کرلیتے جتنی رکعات بڑھائی تھیں کیونکہ یہ چیز مقتدیوں کے لیے ایک رکعت لمبی کرنے سے زیادہ آسان تھی۔ پھر سلف میں سے کچھ لوگ چالیس رکعت قیام اورتین وتر پڑھتے تھے اور کچھ دوسرے حضرات چھتیس رکعت قیام اور تین وتر ادا کرتے تھے اور یہ سب صورتیں اچھی اور جائز ہیں اور جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ قیام رمضان میں کوئی تعداد معین ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمائی ہے اور جسے انسان نہ کم کرسکتا ہے نہ زیادہ تو اس شخص نے خطا کی انتہیٰ۔ “ (ج3ص 193)
(اَقُوْلُ:اِنَّ الْحَافِظَ ابْنَ تَيْمِيَّةَ رحمہ اللّٰه تعاليٰ لَمْ يَنْفِ فِيْ كَلَامِهٖ هذا لثبوت العدد المعين في التراويح عن النبي صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ
|