Maktaba Wahhabi

481 - 896
”پس جب عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ پر جمع فرمایا تو وہ انہیں بیس رکعت اور تین وتر پڑھاتے تھے“۔ 1۔ اولاً: صاحب رسالہ کے کلام میں مذکورترجیح یا تطبیق کو شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے حضرت عمر رضی اللہ کےتراویح قائم کرنے کے بیان میں گیارہ رکعات کے ذکر نہ کرنے کی وجہ بنانا اور بتانا بے دلیل ہے اور جو قول فتاویٰ ابن تیمیہ سےنقل کیاگیا ہے اس کی دلیل نہیں جیسا کہ اس پر غوروفکر کرنے سے ظاہر ہے جب صورت حال یہ ہے تو پھر اوپر منقول قول صاحب رسالہ کے بیان”یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام الخ“میں مذکورحصر وقصر کی دلیل کیونکر بن سکتا ہے۔ 2۔ وثانیاً:شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے اس مقام پر گیارہ رکعات کاذکر نہ فرمانے سے نفس الامراورواقع میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنھما کو گیارہ پڑھانے کا حکم دینے، حضرت ابی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنھما کے گیارہ رکعات پڑھنے اورلوگوں کے عہد فاروقی میں گیارہ اورتیرہ رکعات ادا کرنے کی نفی نہیں ہوتی نیز جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حکم، ابی بن کعب وتمیم رضی اللہ عنھما کا عمل گیارہ رکعات اور لوگوں کا عہد فاروقی میں عمل گیارہ اور تیرہ رکعات صحیح آثار سے ثابت ہے تو محض شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے قول:(فلما جمعهم الخ) کو لے کر ان صحیح آثار کورد کرناکوئی انصاف نہیں۔ 3۔ وثالثاً: پھر شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول:(فلما جمعهم الخ) بظاہرہ حضرت المولف کی نقل کردہ تطبیق کی تردید کررہاہے۔ فتدبر۔ 4۔ ورابعاً:چونکہ بات شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی چل نکلی ہے اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موضوع پر ان کی تحقیق بھی سپرد قلم کردی جائے شاید اس ہی سے کسی کا بھلا ہوجائے چنانچہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ الباری مرقاۃ شرح مشکاۃ میں لکھتے ہیں: (قال شيخ الإسلام "قيام رمضان لم يوقت النبي صلى اللّٰه
Flag Counter