Maktaba Wahhabi

480 - 896
ہونے کی تصریح فرمائی ہے تو جب سے گیارہ رکعات پر عمل شروع ہوا اس وقت سے لے کر آج تک ان پر عمل موقوف ہوا نہ رہتی دنیا تک موقوف ہوگا ان شاء اللہ تعالیٰ پھر جب گیارہ اورتیرہ رکعات پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی مہر ثبت ہے تو تیرھویں صدی تو تیرھویں صدی ہے خواہ قیامت تک کے لوگ ان پر عمل درآمد نہ کریں ان(گیارہ اور تیرہ رکعات) کی سنیت کوکوئی طاقت ختم کرسکی نہ کرسکے گی اور بیس رکعات کےسنت نبویہ ہونے کو کسی طاقت نے آج تک ثابت کیا نہ کرسکے گی رہا بیس رکعات کے خلفاء راشدین کی سنت ہونے کادعویٰ تو اس کے دلائل کا حال بھی پچھلے صفحات میں لکھا جاچکا ہے اسے ملاحظہ فرمائیں۔ 4۔ ورابعا:اگر حضرت المولف کےانداز فکر کو اپنایا جائے تو پھر ہم بھی یہ کہنے کا حق رکھتے ہیں کہ”بہرحال یہ روایت داؤد بن قیس اکیس رکعات والی ترجیح یا تطبیق کے بغیر قابل استدلال نہیں ہے اور ترجیح یا تطبیق کے بعد گیارہ یا تیرہ رکعات پڑھنے والوں کے مدعا پر اس سے کوئی اثر نہیں پڑسکتا اس لیے کہ ترجیح کے بعد اکیس کاثبوت ہی نہیں ہوگا اور تطبیق کے بعد یہ ثابت ہوگیا کہ عہد فاروقی میں چند روز اکیس پر عمل ہواس کے بعد عہد فاروقی ہی میں اکیس پر عمل موقوف ہوگیا اور لو گ بحسب امر فاروقی گیارہ رکعات پڑھتے رہے پھرصاحب رسالہ ہی کے انداز فکر کو پیش نظررکھتے ہوئے حضرت یزید بن خصیفہ اور حارث بن عبدالرحمان کی روایت کو بھی حضرت داؤد بن قیس کی روایت پر قیاس فرمالیں فتامل۔ حضرت المولف لکھتے ہیں: ”یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے جہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے تراویح قائم کرنے کا ذکر کیا ہے وہاں گیارہ کا ذکر بھولے سے بھی نہیں کیا“فرماتے ہیں: (فلما جمعهم عمر على أبي بن كعب كان يصلى بهم عشرين ركعة ثم يوتر بثلاث) اھ (ص 24)
Flag Counter