Maktaba Wahhabi

479 - 896
ثابت ہوگا کہ عہد فاروقی میں چند روز اس پر عمل ہوا اس کے بعد عہد فاروقی ہی میں اس پر عمل موقوف ہوگیا اور جب سے موقوف ہوا اس وقت سے تیرھویں صدی کےآواخر تک پھر کبھی اس پر عمل درآمد نہیں ہوا“۔ (ص 24) 1۔ اولاً: صاحب رسالہ کا بیان” اور ترجیح یا تطبیق کے بعد الخ“ حافظ ابن عبدالبر مالکی کی بیان کردہ ترجیح اور تطبیق پر مبنی ہے جن کا حال پہلے تفصیلاً گزرچکا ہے تو جب مصنف صاحب کے اس فرمان کی بنیاد ہی انتہائی غلط اور احتمالی ہے تو پھر ان کا یہ فرمان کیونکر درست اور غیراحتمالی ہوسکتا ہے فتدبر۔ 2۔ وثانیاً:پہلے آثار بحوالہ بیان ہوچکے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ نےابی بن کعب وتمیم داری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کوگیارہ رکعت پڑھائیں، ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بماہ رمضان گیارہ رکعات پڑھتے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم رضی اللہ عنہ پر لوگوں کو جمع کیا پس وہ دونوں گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔ پھر پہلے یہ بھی بیان ہوچکا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اپنے امر اور لوگوں کے عمل گیارہ رکعات کو بدلنے کی کوئی دلیل نہیں لہٰذا حضرت المولف کا دعویٰ” عہد فاروقی میں چند روز اس پر عمل ہوا اس کے بعد عہد فاروقی ہی میں اس پر عمل موقوف ہوگیا“ بے دلیل ہے۔ 3۔ وثالثاً: حضرت المولف کا فرمان:” اس وقت سے تیرھویں صدی کے اواخر تک پھر کبھی اس پر عمل درآمد نہیں ہوا“ بھی مبنی پر حقیقت اور صادر از انصاف نہیں جیسا کہ امام مالک اور ابوبکر بن العربی کے گیارہ رکعات اور محمد بن اسحاق کے تیرہ رکعات اختیار کرنے سے ظاہر ہے نیز تئیس رکعات، انتالیس رکعات اور اکتالیس رکعات پڑھنے والے گیارہ رکعات پڑھتے رہے ہیں کیونکہ کم عدد زیادہ عدد کےاندر شامل ہوتا ہے چنانچہ قاضی شمس الدین صاحب مدظلہ نے اپنے بعض رسائل میں بیس پڑھنے والوں کے آٹھ رکعات سنت نبویہ کے عامل
Flag Counter