مشاہدہ تو اس سے کہیں زیادہ قوت وپاور کا حامل ہے وہ مشاہدہ یہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ ناف سے اُوپر ہاتھ باندھا کرتے تھے باقی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زیر ناف ہاتھ باندھنے والی روایت ثابت نہیں ضعیف ہے اس کا صاحب تحریر نے بھی اعتراف کیاہے۔
جبکہ وہ روایت ان کے ہاں ثابت ہونے کی صورت میں بھی ان کے ہاں قابل عمل نہیں کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اپنا عمل” ناف سے اوپر ہاتھ باندھنا“ ان کی اس روایت کے خلاف ہے اور راوی کا قول یا عمل اگر اس کی روایت کے خلاف ہوتو حنفیہ کے نزدیک راوی کے قول یا عمل کو اپنایا جاتا ہے نہ کہ اس کی روایت کو، تو ان کا فرض ہے کہ آج ہی سے ناف سے اُوپر ہاتھ باندھنے شروع کردیں۔
نوٹ نمبر1: اوپر ہم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عمل کو مشاہدہ کا نام دیا ہے تو اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا یا ایسا کہتے سناہے کیونکہ یہ ایک احتمالی صورت تو ہوسکتی ہے لیکن حتمی قطعی اور یقینی نہیں۔ ہم نے اس مقام پر صرف اور صرف صاحبِ تحریر کی زبان میں بات کی ہے کہ انہوں نے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے عمل کو مشاہدہ کا نام دیاہے جس کا واضح ترین تقاضا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا عمل بھی مشاہدہ کے نام سے موسوم ہو۔
دیکھئے رکوع والے رفع الیدین کے متعلق صحیح احادیث بکثرت موجود ہیں مگر صاحب تحریراور ان کے ہمنوا حنفی مقلد ان پر عمل نہیں کرتے اور ان سے بعض اس سلسلہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عمل کا سہارا لیتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ زیر بحث مسئلہ میں ان کو اعتراف بھی ہے کہ اس مسئلے میں روایات واحادیث ضعیف اورکمزور ہیں اس کے باوجود وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عمل ”ناف سے اوپر ہاتھ باندھنا“ کو نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔ نتیجہ یہی کہ تقلید کی پاداش میں انہوں نے حدیث کو بھی چھوڑا اور اپنے اُصول وقواعد کو بھی توڑا پھوڑا۔
|