اُوپر جوڑ پر۔ “اس حدیث کو احمد نے روایت کیا اور اس کی سند حسن ہے۔
علامہ نیموی حنفی اس حدیث کی سند کو حسن قرار دینے کے بعد لکھتے ہیں۔ (لكن قوله:علي صدره غير محفوظ) لیکن لفظ”علی صدرہ سینہ پر“محفوظ نہیں مگر ان کی یہ بات درست نہیں کیونکہ انھوں نے اس لفظ کے غیر محفوظ ہونے کی جو دلیل پیش کی ہے اس کا ماحصل یہ ہے کہ سفیان اس لفظ کو بیان کرنے میں متفرد اور اکیلے ہیں اور اصول حدیث سے تھوڑی بہت سوجھ بوجھ رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ کسی ثقہ راوی کا کسی لفظ کے بیان کرنے میں متفرد اور اکیلا ہونا اس لفظ کے غیر محفوظ ہونے کی دلیل نہیں ہوا کرتا بشرطیکہ وہ لفظ اوثق کے بیان کردہ الفاظ کے منافی نہ ہو حافظ ابن حجر عسقلانی نخبۃ الفکر میں فرماتے ہیں:
(وزيادة روايهما مقبولة ما لم تقع منافية لما هو أوثق)
اور ان دونوں صحیح اور حسن کے راوی کے زائد کردہ الفاظ مقبول ہیں جب تک وہ اوثق کے منافی نہ ہوں اور اس مقام پر سفیان کے بیان کردہ لفظ”علی صدرہ اپنے سینہ پر“سماک کے دوسرے تلامذہ کے بیان کردہ الفاظ کے منافی نہیں ہیں۔ تفصیل کے لیے تحفۃ الاحوذی اور ابکار المنن کا متعلقہ مقام دیکھ لیں اور اگر کوئی صاحب سفیان کے ان الفاظ کو ان کے ساتھیوں کے الفاظ کے منافی خیال کرتے ہیں تو یہ ان کی خطا ہے۔
نیموی حنفی کے اسناده حسن”اس کی سند حسن ہے“کہنے سے اتنی بات تو واضح ہو گئی کہ اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی منکر الحدیث، کثیر الغلط اور ضعیف نہیں ہے لہٰذا صاحب تحریر کا کہنا”ان احادیث کے راوی کو محدثین کرام کثیرالخطا الخ شدید الخطا ہے۔
نیز یہ حدیث قبیصہ کے باپ ہلب طائی رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے قبیصہ کی اپنی نہیں اس لیے یہ حدیث بھی سہل ابن سعد رضی اللہ عنہ کی حدیث کی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ، قبیصہ
|