Maktaba Wahhabi

351 - 896
قول جو مالکیوں اور کوفیوں کا قول بھی ہے یہ ہے کہ اسے مطلقاً قبول کیا جائے گا۔ اور شافعی نے فرمایا کہ اسے اس صورت میں قبول کیا جائے گا جب اسے کسی دوسری سند کے ساتھ جو پہلی سند سے بالکل جدا ہو آنے کی وجہ سےقوت حاصل ہو جائے خواہ وہ مسند ہو یا مرسل تاکہ یہ احتمال راجح ہو جائے کہ جو شخص خذف کیا گیا ہے حقیقت میں ثقہ تھا اور حنفیہ میں سے ابو بکر رازی نے اور مالکیہ میں سے ابو الولید باجی نے نقل فرمایا ہے کہ راوی اگر ثقہ اور غیر ثقہ دونوں قسم کے راویوں سے روایت کرتا ہو تو اس کی مرسل بالاتفاق قبول نہیں ہو گی۔ “1۔ (ص55) اس لیے اصول حدیث کے لحاظ سے صاحب رسالہ کا فرض ہے کہ پہلےوہ یہ ثابت فرمائیں کہ مذکورہ بالا چاروں راوی صرف ثقات سے ارسال کرنے کے عادی تھے پھر ان کے آثار سے استدلال فرمائیں کیونکہ ”اصول حدیث کو پیش نظررکھنا ہر ذی علم پر لازم ہے۔ “یادرہے کہ اگر بالفرض صاحب رسالہ ثابت کردیں کہ واقعی یہ چاروں رواۃ صرف ثقات سے ارسال کے عادی تھے تو پھر بھی ان کی مرسل جمہور محدثین کے مذہب کے مطابق حجت نہیں البتہ مالکی اور کوفی مطلقا اور شافعی اعتضاد کی صورت میں اس کی حجیت کے قائل ہیں جیسا کہ حافظ ابن حجر کی عبارت سے صاف صاف ظاہر ہے۔ 2۔ وثانیا: صاحب لکھتے ہیں: ”یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ یزید رومان، یحییٰ بن سعید اور محمد بن کعب قرظی تینوں بزرگ مدینہ منورہ کے رہنے والے ہیں جس قدر مدنی لوگ عہد فاروقی کے حالات سے براہ راست واقف تھے اس قدر دوسرے لوگ واقف نہیں محمد بن کعب کی ولادت40ھ میں ہوئی ان کو کثیر التعداد صحابہ کی ملاقات کا شرف نصیب ہوا انہوں نے اپنی انہوں سے اس واقعہ کو دیکھا اور سالہا سال صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے ساتھ مسجد نبوی میں تراویح ادا کرنے کا موقع ملا۔ “(ص14)
Flag Counter