صاحب رسالہ کے اس بیان سے پتہ چلا کہ عبدالعزیز بن رفیع چونکہ مدینہ منورہ کے رہنے والے تھے اس لیے وہ عہدفاروقی کے حالات سے براہ راست اتنے واقف نہ تھے جتنے کہ یزید بن رومان۔ یحییٰ بن سیعد انصاری اور محمد بن کعب قرظی واقف تھے۔ پھر عبدالعزیز بن رفیع نے حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا دوسرے سے پایا ہی نہیں تو عہد فاروقی کی بابت ان کا بیان کیسے حجت ہو سکتا ہے جب تک وہ عہد فاروقی کے کسی بزرگ کا حوالہ نہ دیں جب کہ عبدالعزیز بن رفیع کے اثر میں حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ اور ان کے دور کا ذکر تک نہیں ان کا بیان صرف اس قدر ہے۔
(كَانَ أُبَيُّ بنُ كَعبٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فِي رَمَضَانَ بِالمَدِينَةِ عِشرِينَ رَكعَةً)
(ابی بن کعب رمضان میں لوگوں کو بیس رکعت پڑھاتے تھے) ادھر صاحب آثار السنن فرماتے ہیں:
(عبد العزيز بن رفيع لم يدرك أبي بن كعب)(تعلیق ص206)
” عبدالعزیز بن رفیع نےابی بن کعب کو نہیں پایا۔ “
رہے مدنی لوگ تو وہ واقعی عہد فاروقی کے حالات سے براہ راست خوب واقف ہیں بشرطیکہ وہ عہد فاروقی میں ہوش سنبھالنے کے بعد زندگی گزار چکے ہوں جیسے کہ حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ جو بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ حضرت ابی بن کعب اور حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا اور ان ہی کا بیان ہے کہ لوگ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں گیارہ اور ایک روایت میں ہے تیرہ رکعات پڑھتے تھےاور ان کے بیس والے اثر پر کلام گزر چکا ہے لیکن وہ مدنی لوگ جن کی ولادت ہی عہد فاروقی کے ختم ہوجانے کے بعد ہوئی ان کا عہد فاروقی کے حالات سے براہ راست خوب واقف ہونا تو درکنار وہ تو سرے سے عہد فاروقی حالات سے براہ راست خوب واقف ہی نہیں محمد بن کعب قرظی مدنی کو ہی لے لیجئے جن کا سنہ ولادت حضرت المصنف نے بذات خود چالیس ہجری بتایا ہے جب کہ عہد فاروقی تیئس ہجری کے آخری ماہ ذوالحجہ میں ختم ہو چکا تھا چنانچہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
|