علامہ عبدالحی لکھنوی، علامہ انور شاہ کشمیری، علامہ شوق نیموی صاحب آثار السنن اور علامہ بیہقی رحمہم اللہ بھی تو آخر جلیل القدر وسعیف العلم حضرات ہی ہیں جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی مرفوع قطعی الصحۃ حدیث (ماكان يزيد الخ)سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رکعات تراویح کا عدد ثابت کرتے ہیں تو ان جلیل القدر وسیع العلم حضرات کی اس مبنی برحق تحقیق پر بھی اعتماد کرنا چاہیے اور صاف صاف واشگاف الفاظ میں اعلان فرمانا چاہیے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رکعات تراویح کی تعداد صحیح اور مرفوع حدیث سے ثابت ہے نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنا چاہیے کیونکہ(خَيْرُ الهَدْي هَدْيُ محمَّد صلَّى اللّٰه عليه وسلم)(سب طریقوں سے بہتر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے) پھر(فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ)(تم میری اور خلفاءراشدین کی سنت کو لازم پکڑو)میں علیکم بسنتی بھی ہے اور خود خلفاءراشدین بھی سنت نبویہ کے تتبع میں رہتے تھے۔ (كما لا يخفيٰ علي من طالع سيرهم)(جیسا کہ اس شخص سے مخفی نہیں جو ان کی سیرت کا مطالعہ کرے)
6۔ وسا دسا: حضرت المؤلف نے شروع رسالہ میں جمہورامت کا تذکرہ فرمایا ہے اور اس مقام پر بھی حافظ ابن عبدالبر کا قول: (وهو قول جمهور العلماء) نقل فرماتے ہیں تو اس سلسلہ میں صرف اتنی گزارش ہے کہ کئی ایک مسائل میں حنفی بزرگوں نے جمہور امت اور جمہور علماء کی مخالفت کی ہے اہل علم کو وہ مسائل معلوم ہیں تفصیل کی ضرورت نہیں پھر جمہوریت شرعی دلائل سے کوئی دلیل بھی نہیں کہ اس پر زور دیا جائے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی چیز جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو جائے تو اس پر عمل کسی صحابی، تابعی، امام، ولی، جمہور امت اورجمہور علماء کے اس پر عمل یا اس کے مطابق فتویٰ کا محتاج نہیں اور نہ ہی کوئی دوسرا عمل اس سے افضل ہے۔
|