والے اثر کو واشگاف یا غیر اشگاف الفاظ میں صحیح کہا گیا ہو۔
4۔ رابعاً:لطف یہ ہے صاحب رسالہ نے امام سیوطی کا پہلے کوئی قول تصحیح سرے سے نقل ہی نہیں کیا مگر انہوں نے ان کے اس اثر کو واشگاف الفاظ میں صحیح قراردینے والوں(بزعم خویش) کی فہرست میں شامل کر لیا البتہ حاشیہ میں ہے(المصابيح للسيوطي)(ص41)جس سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے علامہ سبکی کا قول: (بالاستناد الصحيح) امام سیوطی کے رسالہ مصابیح سے نقل کیا ہے لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہو تا کہ سیوطی کو سبکی کے قول سے اختلاف ہے یا اتفاق پھر اتفاق کی صورت میں سند کے صحیح ہونے سے اثر کا صحیح ہونا لازم نہیں آتا اس لیے صاحب رسالہ کو چاہیے تھا کہ پہلے امام سیوطی کا وہ قول نقل فرماتے جس میں حضرت سائب کے بیس رکعات والے اثر کی تصحیح ہوتی پھر وہ ان کو صحیح قراردینے والوں کی فہرست میں شامل فرماتے تو پتہ چلا کہ مؤلف رسالہ نے جو اقوال اوپر نقل فرمائے ہیں ان میں حافظ ابن تیمیہ، حافظ ابن عبدالبر، امام نووی، علامہ سبکی اور علامہ سیوطی میں سے کسی ایک نے بھی حضرت سائب کے بیس رکعات والے اثر کو واشگاف یا غیر اشگاف الفاظ میں صحیح قرارنہیں دیا۔ لہٰذا صاحب رسالہ ان بزرگوں کے وہ اقوال نقل فرمائیں جن میں انہوں نے اس اثر کو واشگاف الفاظ میں صحیح قرارنہیں دیا ہے پھر وہ یہ دعویٰ کریں کہ ان بزرگوں نے اس اثر کو واشگاف الفاظ میں صحیح قرارنہیں دیا ہے(فَتَفَكَّرْ)ہاں علامہ سیوطی حضرت سائب کے گیارہ رکعات والے اثر سے متعلق فرماتے ہیں۔ (اِسْنَادُه فِيْ غَايةِ الصِّحَّةِ)حوالہ گزر چکا ہے۔
5۔ وخامسا: اگر جلیل القدر وسیع العلم حضرات کی تحقیق پر ہی اعتماد کرنا ہے تو پھر امام محمد، حافظ زیلعی، علامہ سیوطی، علامہ زرقانی، علامہ ابن ہمام، علامہ عینی، ملاعلی قاری،
|