Maktaba Wahhabi

331 - 896
(عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَيْسٍ، وَغَيْرِهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، " أَنَّ عُمَرَ: جَمَعَ النَّاسَ فِي رَمَضَانَ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَعَلَى تَمِيمٍ الدَّارِيِّ عَلَى إِحْدَى وَعِشْرِينَ رَكْعَةُ رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَمُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ)(1ھ، ص5) ”داؤد بن قیس سے روایت ہے وہ محمد بن یوسف سے بیان کرتے ہیں وہ سائب بن یزید سے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کو رمضان میں ابی بن کعب اور تمیم داری پر اکیس رکعت پر جمع فرمایا اس روایت کو عبدالرزاق اورمحمد بن نصرنے بیان کیا۔ “(1ھ، ص5) مصنف عبدالرزاق ہی میں ہے: (ابن جريج، قال: أخبرنى عمران بن موسى، أن يزيد بن خصيفة أخبرهم عن السائب بن يزيد، عن عمر، قال: جمع عمر الناس على أبى بن كعب، وتميم الدارى، فكان أبى بن كعب يوتر بثلاث ركعات) (ج4ص:260، ج:7727) ”ابن جریج نے کہا کہ مجھے عمران بن موسیٰ نے خبر دی کہ انہیں یزید بن خصیفہ نے سائب بن یزید سے خبر دی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کو ابی بن کعب اور تمیم داری پر جمع کیا چنانچہ ابی بن کعب تین رکعت وتر پڑھتے تھے۔ “ (ج4صفحہ 260حدیث:7727) اس اثر سے پتہ چلاکہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تین وتر پڑھایا کرتے تھے تو اب اکیس رکعات سے تین وتر نکال لیے جائیں تو باقی اٹھارہ رکعات رہ جاتی ہیں نہ کہ بیس رکعات۔ نیز داؤد قیس عن محمد بن یوسف کا یہ بیان حضرت یزید بن خصیفہ کے بیان کے خلاف ہے کیونکہ وہ بیس رکعات وتر بیان کرتے ہیں ہاں اگر وتر ایک رکعت سمجھا جائے تو پھر اکیس کے عدد میں تو دونوں بیان آپس میں موافق ہوں گے اور
Flag Counter