تراویح کی تعداد بھی دونوں کے بیان کے مطابق بیس بنے گی مگر اس میں دو چیزیں ہیں:
1۔ حنفی ایک رکعت وتر کے قائل نہیں۔
2۔ ( فكان أبى بن كعب يوتر بثلاث) کی مخالفت۔
داؤد قیس عن محمد بن یوسف کا یہ بیان اکیس رکعات حضرت سائب بن یزیدکے تیسرے شاگرد حارث بن عبدالرحمان کے بیان تئیس رکعات سے بھی متعارض ہے یاد رہے کہ اثر ( فكان أبى بن كعب يوتر بثلاث) کی سند میں عمران بن موسیٰ راوی متکلم فیہ ہے مگر صاحب رسالہ کو یہ بات تسلیم ہے کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تین وتر پڑھایا کرتے تھے جیسے انھوں نے اپنے رسالہ کے آخری صفحہ پر اس بات کی تصریح فرمائی ہے۔
تو خلاصہ کلام ہذایہ ہے کہ حضرت سائب بن یزیدکے دو شاگرد وں محمد بن یوسف اورحارث بن عبدالرحمان کے بیان اکیس اورتئیس ایک دوسرے کے خلاف ہیں۔ رہے سائب بن یزید کے تیسرے شاگرد یزید بن خصیفہ تو ان کا بیان ہے بیس رکعات اور وتر جس میں اکیس اور تئیس دونوں کا احتمال ہے اس لیے کہ وتر سے مراد ایک رکعت ہوتو اکیس رکعات اور وتر سے مراد تین رکعات ہوں تو تئیس رکعات ان کا بیان بنے گا فتامل۔
نیز یہ تینوں بیان اکیس رکعات، تئیس رکعات اور بیس رکعات اور وتر امام مالک اور عبدالعزیز بن محمد عن محمد بن یوسف عن السائب کے بیان گیارہ رکعات اور محمد بن اسحاق عن محمد بن یوسف عن السائب کے بیان تیرہ رکعات کے خلاف ہیں مزید بریں یہ کہ بیس اکیس اور تئیس کا عدد اس رکعات تراویح کے بھی خلاف ہے جو عدد رکعات تراویح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعی الصحۃ مرفوع حدیث سے ثابت ہے کما تقدم۔
صاحب رسالہ فرماتے ہیں” حضرت سائب بن یزیدکےاس اثر کو پانچ ثقہ راویوں الخ(ص8)داؤد بن قیس، محمد بن جعفر، امام مالک، ابن ابی ذئب حارث بن
|