امام کے وقت خاموش رہنے کا حکم ہے:( إِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا)
اور یہی قرآن میں حکم ہے۔
1۔ حضرات احناف اس حدیث کے منکر نہیں بلکہ احناف کے نزدیک بھی فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے منفرد اور امام کو خود پڑھنا ضروری ہے اور مقتدی کو پڑھنا ضروری نہیں کیونکہ امام کی قراءۃ مقتدی کی قراءۃ ہے۔
2۔ نماز میں سورۃ فاتحہ کا پڑھنا بھی واجب ہے اور اس کے ساتھ سورۃ ملانا بھی واجب ہے۔
اگر کوئی منفرد یا امام، سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اور باقی قرآن شریف پڑھ لے تو نماز ناقص اورواجب الاعادہ ہے۔ اسی طرح اگر سورۃ فاتحہ پڑھ لی جائے اور قرآن کریم کی کوئی سورۃ ساتھ نہ ملائی جائے تو نماز ناقص ہے کیونکہ واجب چھوٹ گیا۔ یہ تو تفصیل واجب کی ہوئی، ایک ہے قراءۃ کی فرض مقدار جو ایک بڑی آیت یا چھوٹی تین آیات ہے اگر کسی نے نماز میں قرآن پاک سے بڑی ایک آیت یا چھوٹی تین آیات پڑھ لی تو قراءۃ کی فرض مقدارادا ہوگی لیکن واجب کے چھوٹ جانے سے نماز ناقص اور واجب الاعادہ ہوگی۔
امام صاحب کی ہر گز یہ مراد نہیں اور نہ آپ کا مذہب ہے کہ صرف ایک آیت کے پڑھنے سے نماز کا مل ہو جاتی ہے۔ بلکہ اس میں قراءۃ کی مقدار فرض کا ذکر ہے اور کوئی شخص نماز میںمَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ تک سورۃ فاتحہ پڑھ لے تو قراءۃ فرض کی مقدار پوری ہو جاتی ہے کیونکہ سورۃ فاتحہ بھی تو قرآن کا جزو ہے لہٰذا اس سے یہ تاثر دینا کہ امام صاحب سورۃ فاتحہ کے منکر ہیں درست نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔
احقرعبدالشکور عفا اللہ عنہ
مہر مدرسہ نصرۃ العلوم دارالافتاء مدرسہ نصرۃ العلوم
گوجرانوالہ
6؍11؍1405ھ
|