Maktaba Wahhabi

662 - 896
کے اسی قول کا جو خلاصہ(عدم ثبوته عند ابن المبارك لا يمنع من اعتبار رجاله)علامہ ماردینی نے جوہرنقی میں پیش فرمایا اس پر بھی غور وفکر فرمائیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ دونوں میں فرق ہے۔ 2۔ آپ نے دیکھ لیا کہ وہ بڑے حنفی بزرگ حافظ زیلعی حنفی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ ماردینی حففی رحمۃ اللہ علیہ کبھی حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کےفیصلہ (وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ) الخ کوترمذی، ابوداؤد اور نسائی والی روایت پر بھی چسپاں کرتے ہیں۔ اب ذرا قاری صاحب کا کلام بھی ملاحظہ فرمائیں وہ لکھتے ہیں”اس تفصیل کے بعد بھی اگر کوئی مولنا[1] صاحب اس حدیث پر ابن مبارک کی جرح چسپاں کرنے کی کوشش کریں تو اس کا نرا تعصب یاکم عقلی ہے“ قاری صاحب کا یہ فتویٰ باتقویٰ صرف چسپاں کرنے کی کوشش کرنے والے سے متعلق ہے اور حافظ زیلعی حنفی، علامہ ماردینی حنفی اور دیگر بہت سے اہل علم نے تو کوشش سے بڑھ کر حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے فیصلہ(وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ) الخ کو اس روایت پر چسپاں کربھی دیا ہوا ہےلہٰذا حافظ زیلعی حنفی اور علامہ ماردینی حنفی سمیت وہ تمام بزرگ ازروئے انصاف قاری صاحب کے نزدیک تو بہت ہی زیادہ ”نرے تعصب“ والے اور بہت ہی زیادہ”کم عقل“ ٹھہرے قاری صاحب! کاش کہ آپ نے فتویٰ صادر فرماتے وقت اپنے ان بڑوں حافظ زیلعی اورعلامہ ماردینی حنفی کو ہی نظر میں رکھا ہوتا اور کچھ تو سوچا ہوتا۔ کسی نے سچ کہا پہلے سوچو پھر بولو، یہ میرا مشورہ ہے گرقبول افتذر ہے عزوشرف۔ باقی قاری صاحب کی”اس تفصیل“ والی قید ان کے اس فتویٰ کے ان مندرجہ بالا بزرگوں پر چسپاں ہونے سے مانع نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ تفصیل بلکہ اس سے کہیں زیادہ تفصیل آخر
Flag Counter