ہیں کہ فعل ناسخ نہیں ہوا کرتا۔ خدا جانے مولانا صاحب کون سے اُصول کے تحت فرما رہے ہیں کہ فعل ناسخ نہیں ہوا کرتا مولانا صاحب تفصیل کی تو اب گنجائش نہیں اختصاراً سنیے۔ نووی ج1ص 156 میں ہے۔ (الوضوءِ ممَّا مسَّتِ النَّارُ الخ)(قاری صاحب کا رقعہ نمبر5 ص17)
1۔ اولاً: قاری صاحب نے بزعم خود فعل کے ناسخ ہونے کے اثبات کے لیے نووی ج1ص156 کا حوالہ دیا ہے بندہ نے یہ مقام دیکھا اسے بغور پڑھا مگر مجھے اس مقام پر نووی کا کوئی ایک جملہ بھی ایسا نہیں ملا جس کا مطلب ہو کہ فعل ناسخ ہوا کرتا ہے باقی امام نووی کا اس مقام پر(الوضوءِ ممَّا مسَّتِ النَّارُ الخ)کے منسوخ ہونے کو اکثر اہل علم سے نقل کرنا اس بات کی دلیل نہیں کہ فعل ناسخ ہوا کرتا ہے۔
2۔ ثانیاً: اگر کوئی صاحب فرمائیں کہ نووی صاحب جمہور کی طرف سے لکھتے ہیں:
(وأجابوا عن حديث الوضوء مما مست النار بجوابين : أحدهما أنه منسوخ بحديث جابر - رضي اللّٰه عنه - قال : كان آخر الأمرين من رسول اللّٰه - صلى اللّٰه عليه وسلم - ترك الوضوء مما مست النار، وهو حديث صحيح رواه أبو داود والنسائي وغيرهما من أهل السنن بأسانيدهم الصحيحة، والجواب الثاني أن المراد بالوضوء غسل الفم والكفين، ثم إن هذا الخلاف الذي حكيناه كان في الصدر الأول، ثم أجمع العلماء بعد ذلك على أنه لا يجب الوضوء بأكل ما مسته النارواللّٰه أعلم)(ج1ص156)
اس سے معلوم ہوا کہ فعل ناسخ ہوتا ہے تو عرض ہے کہ جو لوگ حدیث جابر(كان آخر الأمرين الخ) کو ناسخ مانتے ہیں وہ اس میں مذکور امر سے مراد وہ امر لیتے ہیں جو نہی کا مقابل ہے کہ نہی کا مقابل امر قول ہے نہ کہ فعل لہٰذا اس سے فعل کے ناسخ ہونے پر استدلال نادرست ہے اور اگر درست مان بھی لیا جائے تو یہ جمہور کا مذہب ہی ہوگا اور ضروری نہیں کہ جمہور کا مذہب ہر موقع پر درست ہی ہو دیکھئے جمہور کا قول یا مذہب شرعی دلائل میں سے کوئی سی دلیل بھی نہیں۔
(فائدہ)یاد رہے کہ اکثر اہل علم کا حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث (كان آخر الأمرين الخ) میں امر سے نہی کا مقابل امر مراد لینا محل نظر ہے۔ حافظ ابن حجر فتح
|