الباری میں لکھتے ہیں۔
(قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَغَيْرُهُ إِنَّ الْمُرَادَ بِالْأَمْرِ هُنَا الشَّأْنُ وَالْقِصَّةُ لَا مُقَابِلُ النهي وأن هذ اللَّفْظَ مُخْتَصَرٌ مِنْ حَدِيثِ جَابِرٍ الْمَشْهُورِ فِي قِصَّةِ الْمَرْأَةِ الَّتِي صَنَعَتْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاةً فَأَكَلَ مِنْهَا ثُمَّ تَوَضَّأَ وَصَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ أَكَلَ مِنْهَا وَصَلَّى الْعَصْرَ وَلَمْ يتوضَّأْ) (ج 1باب من لَمْ يتوضَّأْمن لحم ا شَاةً والسويق ص 311)
3۔ ثالثاً:علامہ خطابی ترک الوضوء ممامست النار کی ایک روایت کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
(وفي الخبر دليل على أن الأمر بالوضوء مما غيرت النار استحباب لا أمر ايجاب)
(معالم السنن برحاشیہ مختصر السنن للمنذری ج1ص140)
تو اس سے معلوم ہوا کہ علامہ خطابی ایسے مشہور و معروف محدث بھی ترک الوضوء ممامست الناروالی روایت احادیث کو الوضوء ممامست النار والی احادیث کے لیے ناسخ نہیں سمجھتے بلکہ وہ تو صرف ان کو (تَوَضَّؤوا مِمَّا مَسَّتِ النَّارُ) میں امر کے ندب واستحباب پر محمول ہونے کی دلیل سمجھتے ہیں اور ہمارے نزدیک یہی بات راجح ہے لہٰذا اس مسئلہ میں ترک وضو کو ناسخ بنانا درست نہ رہا جبکہ ترک وضوء کا الوضوء ممامست النار والی حدیث سے متاخر ہونا بھی نظر سے خالی نہیں پھر امام زہری ایسے محدث و فقیہ تو الوضوء ممامست النار والی حدیث کو ترک وضوء والی حدیث کا ناسخ قراردیتے ہیں تو واضح ہو گیا کہ قاری صاحب کا الوضوء ممامست النار والے مسئلہ کو اس مقام پر پیش کرنا ان کے لیے کوئی مفید نہیں۔
4۔ رابعاً:قاری صاحب اگر ترک الوضوء ممامست النار والے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کو آپ کے فرمان (تَوَضؤوا مِمَّا مَسَّتِ النَّارُ) کے لیے ناسخ بنانے پر مصر ہوں تو پھر انصاف کا تقاضا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بوقت بول استقبال قبلہ والے فعل کو بھی آپ کے فرمان (لا تستقبلوا القبلة بغائط ا و بول الخ) کےلیے ناسخ بنائیں جبکہ دوسری صورت میں فعل کا متاخر ہونا یقینی طور پر معلوم ہے
|