Maktaba Wahhabi

721 - 896
اور پہلی صورت میں فعل کا متاخر ہونا محل نظر ہے تو انصاف کا تقاضا ہے کہ فعل کو دونوں صورتوں میں ناسخ بنایا جائے یا دونوں صورتوں میں ناسخ نہ بنایا جائے اور یہ تقریر قاری صاحب کے خیال کے پیش نظر ہے اور ہم اپنے نظریہ کی پہلے وضاحت کر چکے ہیں چونکہ قاری صاحب دوسری صورت میں فعل کو اس کے متاخر ہونے کے باوجود ناسخ نہیں سمجھتے اس لیے پتہ چلا کہ قاری صاحب بھی فعل کے ناسخ نہ ہونے کے اندر سے قائل ہیں تو اب بندہ یہ بات کہنے میں حق بجانب ہے کہ قاری صاحب آپ ماشاء اللہ عالم دین ہیں لیکن مجھے آپ پر افسوس بہت آتا ہے کہ آپ دوسروں کو تو اس فعل کے ناسخ بنانے کی تلقین کر رہے ہیں جس کا تاخر سرے سے ثابت ہی نہیں اور خود اس فعل کو بھی ناسخ کہنے کے لیے تیار نہیں جس کا تاخر دلیل سے ثابت ہے۔ اللہ جانے آپ یہ کام کس اُصول کے تحت کر رہے ہیں۔ ہمیں تو آپ کی اس پالیسی میں انصاف اور اللہ تعالیٰ کے ڈر کی کوئی معمولی سی رمق بھی نظر نہیں آتی۔ 5۔ خامساً:اس مقام پر ہمارے کلام”فعل ناسخ نہیں ہوا کرتا“میں ترک بھی شامل ہے کیونکہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی روایت میں قاری صاحب کے نزدیک ترک رفع الیدین ہی ذکر ہے اور اسی ترک کو انھوں نے ناسخ قراردیا ہوا ہےاور ان کی اسی بات کے جواب میں بندہ نے لکھا تھا”فعل ناسخ نہیں ہواکرتا“پھر عمل اور ترک عمل دونوں پر فعل کے اطلاق میں کوئی مضائقہ بھی نہیں اور یہ بات واضح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی عمل کو بسا اوقات صرف اس لیے ترک فرما دیا کرتے تھے کہ کہیں وہ فرض اور واجب نہ ہو جائے چنانچہ صحیح بخاری میں حدیث ہے اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔ (اِنْ كَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيدعُ الْعَمَلَ وهُوَ يحِبُّ أَنَ يَعْمَلَ بِهِ؛ خَشْيةَ أَنْ يَعْمَلَ بِهِ النَّاسُ فيُفْرَضَ عَلَيْهِمْ) (جلد اول، کتاب التہجد، باب تحریض النبی صلی اللہ علیہ وسلم علیٰ قیام اللیل ص152)
Flag Counter