Maktaba Wahhabi

722 - 896
تو اس حدیث سے واضح ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عمل کے ترک کر دینے کو اس عمل کے منسوخ ہونے میں منحصر سمجھنا درست نہیں کیونکہ ترک کے نسخ کے علاوہ اور بھی وجہ موجود ہے بلکہ وجوہ موجود ہیں چنانچہ ایک وجہ تو اس حدیث میں مذکور ہے اور ایک وجہ اس سے قبل علامہ خطابی کے کلام میں گزر چکی ہے اور بسا اوقات کسی عمل کو کسی دائمی یا غیر دائمی مانع اور عذر کی بنا پر بھی چھوڑ دیا جاتا ہے تو دلائل سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عمل کے ترک کر دینے کو اس عمل کے منسوخ ہونے میں مقصود ومحصورسمجھنا بالکل ہی غلط اور نادرست ہے تو ثابت ہوا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی روایت میں مذکور ترک رفع الیدین کو رفع الیدین سے متاخر فرض کر لینے کی صورت میں بھی ترک رفع الیدین کو ناسخ قراردینا درست نہیں کیونکہ اس ترک کے ترک بوجہ منسوخیت رفع الیدین ہونے کی کوئی دلیل نہیں۔ نیز بندہ کا پیش کردہ اُصول”فعل ناسخ نہیں ہوا کرتا“مذکورہ دلائل سے مدلل ہو گیا۔ 6۔ سادساً: قاری صاحب آپ نے مجھے شوافع وغیرہ سے نقل کرنے کا بزعم خود طعنہ دیا چنانچہ آپ ایک مقام پر لکھتے ہیں”یہ دلائل آپ شوافع وغیرہ کے پیش کررہے ہو آپ جیسے عالم کے لیے مناسب نہیں “(قاری صاحب کا رقعہ نمبر5ص7) اور آپ ہی ایک دوسرےمقام پر لکھتے ہیں” اصل بات یہ ہے مولانا صاحب یہ دلائل شوافع وغیرہ سے مانگ مانگ تم اپنا مسلک ان دلائل سےثابت کرنا چاہتے ہو۔ الخ“(قاری صاحب کا رقعہ نمبر5ص9) چاہیے تو یہ تھا کہ آپ کی تحریروں میں شوافع وغیرہ کا کوئی حوالہ نہ آتا مگر آپ کے رقعہ جات میں جتنے حوالے دیے گئے ان سے کوئی ایک حوالہ بھی شوافع وغیرہ سے باہر نہیں۔ دیکھئے اس مقام پر ہی آپ نے نووی کا حوالہ پیش کیا ہوا ہے پھر آپ نے بیہقی، دارقطنی، اور دیگر اہل علم سے کئی ایک باتیں نقل فرمائیں اور سب اہل علم شوافع وغیرہ ہی میں شامل ہیں۔ آپ کے رقعہ جات میں مذکور رجال سے کوئی ایک بھی شوافع
Flag Counter