دیکھا صاحب!حدیث کے لفظ تو تھے”جو تم سے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کریں تم اس کی تصدیق کرو“مگر آپ نے حذیفہ کو ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے تبدیل کردیا تو صاحب مشکوۃ پر وہم کا فتوی لگانے والے اور دوسروں کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی تلقین کرنے والے قاری صاحب بتلائیں کہ یہ حذیفہ کو اابن مسعود رضی اللہ عنہ میں تبدیل کرنے والا کار نامہ بھی انھوں نے وہم سے محفوظ رہ کر اور اللہ تعالیٰ سے ڈر کر ہی سر انجام دیا ہے؟
(فائدہ) حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ والی مذکورہ بالا روایت کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے تو حسن کہا ہے مگر وہ حسن ہے نہیں کیونکہ اس کی سند میں شریک ابن عبداللہ نخعی ہیں جن کے متعلق تقریب میں لکھا ہے:(صدوق يخطى كثيرا تغير حفظه منذولي القضاء بالكوفة، وكان عادلا فاضلا عابدا شديدا على اهل البدع) نیز اس کی سند میں ابو الیقظان بھی ہیں جن کے متعلق تقریب ہی میں لکھا ہے (أبو اليقظان الكوفي الأعمى ضعيف، واختلط، وكان يدلس، ويغلوفي التشيع) تو حدیث (وما حَدَّثكم ابنُ مسعودٍ فصَدِّقوه) کو ثابت کرنا ابھی تک قاری صاحب کےذمہ ہے۔
2۔ ثانیا: صحابی کوئی بھی ہو اس کی بیان کردہ حدیث کی تصدیق ہی کی جائے گی بشرطیکہ صحابی کا اس حدیث کو بیان کرنا ثابت ہو جائے اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ترک رفع الیدین والی روایت کو تو بہت سارے محدثین ناقابل احتجاج قراردے چکے ہیں جن میں سے بارہ ائمہ محدثین کے اسماہ گرامی پہلے لکھے جا چکے ہیں تو قاری صاحب پہلے آپ اس روایت (ترک رفع الیدین والی روایت) کا حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان ہونا تو ثابت فرمالیں پھر اس کے (فصَدِّقوه) والی روایت پیش فرمائیں۔
3۔ ثالثا: قاری صاحب کا مدعا ہے”منسوخیت رفع الیدین “چنانچہ وہ خود فرماتے ہیں”میرا دعویٰ ہے منسوخیت رفع الیدین کا“اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
|