2۔ (یحییٰ بن سعید): حضرت عمر نے ابی بن کعب اور تمیم پر لوگوں کو جمع کیا پس وہ دونوں گیارہ رکعت پڑھتے تھے(اس میں حضرت عمرکے حکم کا ذکر نہیں) بحوالہ مصنف ابن ابی شیبہ۔
3۔ (عبدالعزیز بن محمد) :ہم حضرت عمر کے زمانہ میں بماہ رمضان گیارہ رکعت پڑھتے تھے(اس میں نہ حکم کا ذکر ہے نہ ابی بن کعب وتمیم داری کا) بحوالہ سنن سعید بن منصور۔
4۔ (ابن اسحاق) :ہم حضرت عمر کے زمانہ میں بماہ رمضان تیرہ رکعت پڑھتے تھے (اس میں بھی حکم اور ابی بن کعب وتمیم کا ذکر نہیں اور گیارہ کی بجائے تیرہ کا ذکر ہے) بحوالہ قیام اللیل۔
5۔ (داؤد بن قیس وغیرہ) :حضرت عمر نے رمضان میں لوگوں کو ابی بن کعب اور تمیم داری کی اقتداء میں اکیس رکعت پر جمع کیا۔ (اس میں گیارہ کی بجائے اکیس کا ذکر ہے) بحوالہ مصنف عبدالرزاق۔
پس اصول کی رو سے یہ روایت مضطرب ہے اوراس حالت میں جب تک کہ کسی ایک بیان کو اصول کے مطابق ترجیح نہ دی جائے یا تمام بیانات میں تطبیق نہ دی جائے اس وقت تک اس روایت کو کسی مدعا کے ثبوت میں پیش کرنا درست نہیں۔ (ص 22، 23)
1۔ اولاً: صرف اور صرف محمد بن یوسف کے اثر کا ناقل ہونا کوئی وجہ ضعیف نہیں، دیکھئے بخاری شریف کی حدیث (إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ...الخ) کے ناقل صرف او رصرف حضرت علقمہ ہیں حالانکہ حدیث(إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ...الخ) باتفاق جمیع محدثین صحیح ہے پھر محمد بن یوسف سے متعلق صاحب رسالہ ہی لکھتے ہیں”محمد ابن یوسف ثقہ، ثبت، تقریب ص 238“(ص 9) لہٰذا صاحب رسالہ کا قول”اس اثر کے ناقل
|