Maktaba Wahhabi

440 - 896
صرف اور صرف محمد بن یوسف ہیں“حقیقت حال کا بیان ہے تصنیف اثر نہیں۔ 2۔ وثانیا:یحییٰ بن سعید قطان کا بیان”حضرت عمر نے ابی بن کعب اور تمیم داری پر لوگوں کو جمع کیا پس وہ دونوں گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔ “امام مالک کے بیان”حضرت عمر نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعات پڑھائیں۔ “کے خلاف و منافی نہیں بلکہ یحییٰ بن سعید کا بیان بتا رہا ہے کہ حضرت ابی بن کعب اور تمیم داری کا عمل گیارہ رکعات تھا اور امام مالک کا بیان واضح کر رہا ہے کہ حضرت عمر نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا تو ان میں موافقت ہے مخالفت اورمنافات نہیں یہ درست ہے یحییٰ بن سعید کے بیان میں حضرت عمر کے حکم کا ذکر نہیں مگر ان کے بیان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کی نفی بھی نہیں ہے۔ نیز عبدالعزیز بن محمد کا بیان”ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بماہ رمضان گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔ “امام مالک اور یحییٰ ابن سعید کے مذکورہ بالا بیانات کے خلاف و منافی نہیں کیونکہ اس میں نہ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گیارہ رکعات کا حکم دینے کی نفی ہے اور نہ یہ حضرت ابی بن کعب اور تمیم داری کے گیارہ رکعات پڑھنے کی نفی ہے باقی اس میں حکم اور ابی بن کعب و تمیم داری کا ذکر نہ ہونے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دینے اور حضرت ابی بن کعب و تمیم داری کے گیارہ رکعات پڑھانے کی نفی نہیں ہوتی ہاں اس میں یہ ضرور بتا یا گیا ہے کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بماہ رمضان گیارہ رکعات پڑھتے تھے ادھر امام مالک کے بیان کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حکم بھی گیارہ رکعات ہی تھا اور یحییٰ بن سعید کے بیان کے موافق حضرت ابی بن کعب اور تمیم داری کا عمل بھی گیارہ رکعات ہی تھا۔ پھر محمد بن اسحاق کا بیان ”ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بماہ رمضان تیرہ رکعات پڑھتے تھے۔ “بھی امام مالک، یحییٰ بن سعید اور عبدالعزیز بن محمد کے بیانات مذکورہ کے خلاف ومنافی نہیں بشرطیکہ صاحب آثار السنن کی توجیہ”تیرہ رکعات میں
Flag Counter