Maktaba Wahhabi

441 - 896
بعد از عشاء والی دو رکعات شامل ہیں“کو تسلیم کر لیا جائے باقی اس میں حکم اور ابی بن کعب و تمیم داری کا ذکر نہ ہونا ان کے بیانات سے مخالفت و منافات نہیں کما تقدم ہاں اگر صاحب آثار السنن کی توجیہ اور اس قسم کی کسی اور توجیہ کو تسلیم نہ کیا جائے تو پھر محمد بن اسحاق کا بیان عبدالعزیز بن محمد کے بیان کے منافی ہو گا کیونکہ اس میں ہے کہ ہم گیارہ رکعات پڑھتے تھے اور اس میں ہے کہ تیرہ رکعات پڑھتے تھے البتہ محمد بن اسحاق کا بیان اس صورت میں بھی امام مالک اور یحییٰ بن سعید کے بیانات کے خلاف و منافی نہیں کیونکہ امام مالک کے بیان میں گیارہ کے حکم اور یحییٰ بن سعید کے بیان میں ابی بن کعب و تمیم داری کے گیارہ رکعات پڑھنے کا تذکرہ ہے اور محمد بن اسحاق کے بیان میں ان دونوں چیزوں (حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گیارہ کا حکم دینے والی اور ابی بن کعب و تمیم داری کے گیارہ پڑھنے) کی نفی نہیں کی گئی کیونکہ عدم ذکر کو نفی نہیں کہا جا سکتا۔ رہا داود بن قیس کا بیان”حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رمضان میں لوگوں کو ابی بن کعب اور تمیم داری کی اقتدا میں اکیس رکعات پر جمع کیا“تو واقعی امام مالک اور یحییٰ بن سعید کے بیانات کے خلاف و منافی ہے بشرطیکہ وہ مقبول ہو البتہ وہ عبدالعزیز ابن محمد اور محمد بن اسحاق کے بیانات کے خلاف و منافی نہیں تو پتہ چلا کہ صاحب رسالہ کا فرمان ”اور ان پانچوں کے بیان باہم مختلف ہیں“محل نظر ہے فتدبر۔ وثانياً:قال العلامة الزرقاني في شرح المؤطا :وقوله:ان مالكا انفرد به ليس كما قال فقد رواه سعيد بن منصور من وجه اخر عن محمد بن يوسف فقال:احدي عشرة كما قال مالك 1ه۔ (ج 1ص 239) وقال الحافظ في الفتح :لم يقع في هذه الرواية عدد الركعات التي كان يصلي بها ابي بن كعب وقد اختلف في ذالك ففي الموطا عن محمد بن يوسف عن السائب بن يزيد انها احدي عشرة ورواه سعيد بن منصور من وجه اخر۔ الخ (ج4 ص 253)
Flag Counter