ان کی تقلید کا دعویٰ کرتے ہیں ورنہ جو کوئی عالم یا بزرگ اس مسئلہ میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ہمنوا ہے ہمارے نزدیک وہ اس مسئلہ میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرح ہی ہے نیز دیگر مسائل میں بھی اہل علم کے اقوال و فتاویٰ حجت نہیں کیونکہ دین میں حجت صرف کتاب و سنت ہے۔
ہمارے قابل احترام حنفی بھائیوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ اس صورت میں انہیں کون سی راہ اختیار کرنا ہے اگر وہ یہ کہیں کہ امام اور اکیلے کی نماز سورہ فاتحہ پڑھنے کے بغیر نہیں ہوتی تو وہ اس مسئلہ میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مقلد نہیں رہیں گے اور اگر کہیں کہ امام اور اکیلے کی نماز بھی سورہ فاتحہ پڑھنے کے بغیر ہو جاتی ہے تو ان کی اس مسئلہ میں تقلید تو قائم رہے گی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:
”نہیں کوئی نماز اس کی جو نہ پڑھے سورہ فاتحہ۔ “
ہاتھ سے جاتا رہے گا ایمان کا تقاضا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو ہاتھ سے ہرگز نہ جانے دیا جائے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ یا کسی اوركا قول چھوٹتا ہے تو بے شک چھوٹے اس کی پروانہ کی جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو خاتم الانبیاء والمرسلین ہیں اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ تو خالی پیغمبر بھی نہیں پھر امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس تو اجتہادی خطا والا عذر موجود ہے اور آپ اس سے بھی تہی دست اور تہی دامن، غور فرمائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان پڑھ سن کر صرف تقلید امام کی آڑ میں اسے نہ ماننا کہاں کا انصاف ہے؟کل اللہ تعالیٰ کے ہاں کیا جواب دیں گے؟ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و حدیث کے مقابلہ میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی اپنے قول کو چھوڑدینے والی تلقین کو ملحوظ خاطر رکھیں۔
مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے ایک مفتی صاحب کا خیال ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے عندیہ”کم ازکم قراءت جو نماز میں کفایت کر جاتی ہے وہ ایک آیت ہے۔ “میں”ایک آیت“سے مراد سورہ فاتحہ کے بعد” ایک آیت”ہے چونکہ ان کا یہ خیال بالکل خطا تھا اس لیے جب ان کی تحریر ہمارے محترم ساتھی حافظ عبدالسلام
|