وَسُورَةٍ وَفيِ الْأُخْرَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَاِنْ لَّمْ تَقْرَا فِيْهِمَا اَجْزَاكَ وَاِنْ سَبَّحْتَ فِيْهِمَا اَجْزَاكَ وَهُوَ قُوْلُ اَبِيْ حَنِيْفَةَ رَحِمَهُ اللّٰهُ ) (ص101)
”سنت ہے کہ تو فرض نماز کی پہلی دو رکعتوں میں تو پڑھے سورۃ فاتحہ اور کوئی اور سورۃ بھی اور دوسری دو رکعتوں میں صرف سورۃ فاتحہ اور اگر تو ان آخری دونوں میں قراءت نہ کرے تو بھی تجھے کافی ہے اور اگر تو ان آخری دونوں میں تسبیح پڑھ لے تو بھی تجھے کافی ہے اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کا بھی یہی قول ہے۔ “
بعض لوگ کہتے ہیں:
”امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے کلام میں فیصلہ سنت کا تعلق پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے بعد ایک سورۃ پڑھنے اور دوسری دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ پڑھنے پر اکتفا کرنے کےساتھ ہے رہا پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور کوئی اور سورۃ یا سورۃ کے بقدر قرآن پڑھنا تو وہ ہمارے ہاںواجب ہے۔ “
مگر یہ ان بعض لوگوں کا اپنا ذاتی یا جماعتی خیال ہے اس کو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول قرار دینے کے لیے ان تک صحیح سند درکار ہے جو ابھی تک مجھے تو نہیں ملی تو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک امام یا اکیلا نمازی قرآن مجید کے کسی مقام سے کوئی ایک ہی آیت پڑھ لے سورہ فاتحہ سے بے شک ایک لفظ بھی نہ پڑھے تو بھی نماز ہو جائے گی کیونکہ ان کے قول کے مطابق قراءت کا فرض ادا ہو گیا۔
غور کیجیے نمازی اکیلا ہو یا امام سورہ فاتحہ نہ پڑھے قرآن مجید کی کوئی اور ایک ہی آیت پڑھ لے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس کی نماز ہوگئی اور مقتدی سورہ فاتحہ یا کوئی آیت پڑھے تو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے مطابق گنہگار ٹھہرے تو سوچئے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:”نہیں کوئی نماز اس کی جو نہ پڑھے سورۃ فاتحہ“کون سے نمازی کی کون سی نماز کے متعلق ہے؟
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا بالخصوص نام اس لیے ذکر کیا گیا کہ ہمارے ہاں کئی لوگ
|