هَدَاهُمُ اللّٰه ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ)
”سو تو بشارت سنادے میرے بندوں کو جو سنتے ہیں بات پھر چلتے ہیں اس پر جو اس میں سب سے اچھی ہے وہی ہیں جن كو رستہ دیااللہ نے اور وہی ہیں عقل والے۔ “
صحیح بخاری میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(لا صَلاة لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ) (ج1 صفحہ 104)
”نہیں کوئی نماز اس کی جو نہ پڑھے سورہ فاتحہ۔ “
اس صحیح حدیث کی روسے کوئی سی نماز بھی سورہ فاتحہ پڑھنے کے بغیر نہیں ہوتی خواہ وہ نماز امام کی ہو یا اکیلے کی یا مقتدی کی۔
اُدھر امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک امام کے پیچھے تو پورے قرآن مجید سے کوئی ایک آیت پڑھنے کی بھی گنجائش نہیں نہ سورہ فاتحہ سے اور نہ ہی کسی اور سورۃ سے۔ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ مؤطا میں لکھتے ہیں:
(لا قراءة خلف الامام فيما جهر فيه، ولا فيما لم يجهر فيه، بذلك جاءت عامة الآثار، وهو قول ابي حنيفة) (ص94)
”امام کے پیچھے کوئی قراءت نہیں نہ جہری نماز میں اور نہ ہی سری نماز میں اسی کے ساتھ عام آثار آئے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے۔ “
امام اوراکیلا نمازی قرآن مجید سے کسی سورۃ کی کوئی ایک ہی آیت پڑھ لے تو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قراءت کا فرض ادا ہوجائے گا خواہ وہ سورۃ فاتحہ سے ایک لفظ بھی نہ پڑھیں تو امام اور اکیلے نمازی کے لیے سورۃ فاتحہ اور اس کے بعد کوئی سورۃ پڑھنا امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک فرض نہیں امام محمد رحمۃ اللہ علیہ مؤطا ہی میں فرماتے ہیں:
(اَلسُّنَّةُاَنْ تَقْرَاَ فيِ الْفَرِيْضَةِ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ
|