سب احادیث پر ہم عمل کر ہی نہیں سکتے اس نص قطعی کی تردید ہے اس کی بجائے آیات و احادیث میں غور و فکر کے ساتھ اس تعارض کو دور کرنے کی کوشش اس نص قطعی کی تعمیل ہے۔ آگے اس تطبیق یا ترجیح کا نفس الامری یا نص قطعی ہونا ضرور نہیں ہمارا کام کوشش کرنا ہے اگر ہم درست تطبیق یا ترجیح تک پہنچ گئے توہمیں دو اجر ملیں گے اور اگر غلطی ہوگئی تو ایک اجر ملے گا۔ جیسا کہ بخاری اور مسلم میں عبد اللہ بن عمرو اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(إذا حَكَمَ الحاكِمُ فاجْتَهَدَ ثُمَّ أصابَ فَلَهُ أجْرانِ، وإذا حَكَمَ فاجْتَهَدَ ثُمَّ أخْطَأَ فَلَهُ أجْرٌوَّاحِدُ) (مشکوۃ ص224)
2۔ اگر آپ میری یا ائمہ حدیث کی تطبیق و ترجیح کو اس بنا پر توجہ کے قابل نہیں سمجھتے کہ وہ نص قطعی یا نفس الامری نہیں تو فرمائیے امام ابو حنیفہ کے تمام آراء وقیاسات جن کی طرف لوگوں کو بلانے کے لیے آپ احادیث کو متعارض قراردے کر ناقابل عمل ٹھہرا رہے ہیں ان میں سے ایک بھی نص قطعی یا نفس الامری ہے؟ کیا ان پر وحی الٰہی کا نزول ہوتا تھا کہ آپ نے ان کے آراء وقیاسات کو جزو ایمان بنایا ہوا ہے۔ تعارض اٹھانے کی کوشش تو اللہ کے کلام کی تعمیل ہے یا تمام آراء و قیاسات اللہ کے کون سے حکم کی تعمیل ہیں؟ یہاں آپ کو نص قطعی کا مطالبہ بھول جاتا ہے مثلاً مندرجہ ذیل ارشادات نص قطعی یا نفس الامری؟
1۔ شرعی محرمات(ماں بہن بیٹی وغیرہ) سے نکاح کر کے جماع کرے تو اس پر حد نہیں حالانکہ اس جرم کی حد یہ ہے کہ اسے قتل کردیا جائے مگر یہاں اسے قتل نہیں کیا جائے گا) (ہدایہ ص212ج 2طبع سراج دین)
2۔ کسی عورت کو زنا کے لیے اجرت پر لا کر زنا کرے تو اس پر حد نہیں۔ (عالمگیری ص53ج2مطبع احمدی)
3۔ ہر نشہ آور چیز حرام نہیں۔ (ہدایہ اخیرین ص480امین کمپنی دہلی)
|