فیصلہ تضعیف کے سلسلہ میں بندہ سے صحیح حوالہ کا مطالبہ کیا جس کے جواب میں بندہ نے کہا کہ میں نے صحیح حوالہ تو پہلے ہی پیش کیا ہوا ہے کہ ان دونوں بزرگوں کا وہ فیصلہ حافظ ابن حجر کی کتاب تلخیص میں موجود ہے چنانچہ ان کے اس فیصلہ کے تلخیص میں موجود ہے چنانچہ ان کے اس فیصلہ کے تلخیص میں موجود ہونے کا قاری صاحب نے خود بھی اعتراف فرمایا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں”البتہ حافظ ابن حجر تلخیص الجیر امام بخاری ے رسالہ جزء رفع الیدین کے حوالہ سے لکھتے ہیں (قال احمد وشيخه يحيٰ بن آدم هو ضعيف) الخ (قاری صاحب کا رقعہ نمبر6ص1) کیوں جی قاری صاحب بندہ نے صحیح حوالہ پیش کردیا تھا نا جس کا آپ نے خود بھی اعتراف فرما لیا لہٰذا آپ کی مندرجہ بالا عبارت بے بنیاد اور واقع کے سراسر خلاف ہے کیونکہ بندہ نے آپ کے اس حوالہ کا بھی جواب دیا نیز آپ کی اس شرط کو بھی مد نظر رکھا تھا۔ رہی آپ کی”اصل کتاب“والی بات تو وہ آپ کے پانچویں رقعہ میں بالکل نہیں ہے چنانچہ آپ کے اسے دوقوسوں کے درمیان ذکر کرنے سے بھی ظاہر ہورہا ہے تو قاری صاحب! اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ صرف دوسروں کو ہی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا وعظ نہ کریں خود بھی تو اللہ تعالیٰ سے ڈریں نا۔
2۔ ثانیاً، اس مسئلہ پر میری اور آپ کی بات چیت جاری رہنے اور ختم ہو جانے والا معاملہ آپ کی مرضی پر موقوف ہے آپ چاہیں تو میرے پانچویں رقعہ کا جواب دیں چاہیں تو نہ دیں۔ آپ پر کسی قسم کا کوئی جبر نہیں ہے اور نہ ہی آپ کا جواب نہ دینا اور بات چیت کو ختم کرنا عقلی اور نقلی طور پر کسی شرط کے ساتھ مشروط ہے لہٰذا اس مقام پر آپ کی شرط مشروط والی بات سراسر بے موقع و محل ہے کیونکہ اس کے بغیر بھی آپ بات چیت کو ختم کر سکتے ہیں ہاں اتنی بات ضرور یاد رکھیں۔
|