بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بخدمت اقدس جناب قاری جمیل صاحب!
زَادنيَ اللّٰه تَعَاليٰ وَايَّاكَ عِلْمًا نَافِعًا وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبر کاتہ!
آپ کا چھٹا رقعہ موصول ہوا جس میں آپ لکھتے ہیں”آپ نے اس حوالہ کا جواب نہیں دیا جو میں نے اپنے رقعہ نمبر5ص9 پر لکھا تھا کہ اگر یہ حوالہ صحیح ثابت کردے تو آگے بات کرنا ورنہ ختم (یعنی اصل کتاب سے) تو جب مولانا صاحب میں نے اس شرط کے ساتھ لکھا تھا کہ پہلے اس کو صحیح ثابت کریں پھر آگے چلنا لیکن آپ نے اس شرط کو مدنظر نہیں رکھا اس لیے آپ کے رقعہ کا جواب میں اس وقت دوں گا جب آپ یہ حوالہ صحیح ثابت کردیں اس کے پہلے نہیں کیوکہ[1] قانون ہے۔ (اذا فات الشرط فات المشروط) (قاری صاحب کا رقعہ نمبر6ص1)
1۔ اولاً، بندہ نے اپنے 96 صفحات پر مشتمل پانچویں رقعہ میں قاری صاحب کے پانچویں رقعہ میں درج تمام باتوں کا مدلل جواب تحریر کیا چنانچہ قاری صاحب کی مندرجہ بالا عبارت میں بھی اس بات کا ایک گنا اعتراف واقرار پایا جاتا ہے، انہیں شکوه ہے تو صرف ایک حوالہ کے متعلق کہ اس کا انہیں جواب نہیں دیا گیا حالانکہ بندہ نے اس کا جواب بھی دے دیا تھا چنانچہ آپ قاری صاحب کے رقعہ نمبر 5ص9 اور بندہ رقعہ نمبر5ص45وص46 کو پڑھ کر خود معلوم کر سکتے ہیں۔ سر دست اتنی بات یاد رکھیں کہ قاری صاحب نے حضرت الامام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور یحییٰ بن آدم رحمۃ اللہ علیہ کے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت سے متعلق
|