لگاتے وقت ملا علی قاری کی صفت”الشیخ العلامہ“ کو آپ بالکل ہی بھول گئے وہاں بھی تو ملا علی قاری ایسے الشیخ العلامہ کی طرف سے صاحبِ مشکوٰۃ کی تائید کو تسلیم فرمائیں نا اور صاحبِ مشکوٰۃ پر اس مقام پر وہم والا الزام واپس لیں ناتو قصہ مختصر ہر الشیخ العلامہ کی ہربات دُرست نہیں ہواکرتی۔ آپ نے خود لکھا ؎
ہر ہاتھ کو عاقل ید بیضاء نہیں کہتے اور ہرصاحب عصا کو موسیٰ نہیں کہتے
اور ایسے ہی عاقل ہر الشیخ العلامہ کی ہر بات کو بے خطا نہیں کہتے تو ملا علی قاری کا قول(وَيُفِيْدُ النَّسْخَ)خطا ہے۔ چنانچہ کئی ایک حنفی بزرگ مقلد مولانا محمد انورشاہ صاحب کشمیری حنفی، مولانا عبدالحئی لکھنوی حنفی اور علامہ سندھی حنفی رفع الیدین کو غیر منسوخ قراردے چکے ہیں۔
تو بندہ کے اس چوتھے جواب میں مرکزی بات تو یہ تھی کہ(رَافِعِي أَيْدِيكُمْ) میں رکوع والا رفع الیدین ہونے کی قاری صاحب نے ابھی تک کوئی دلیل بیان نہیں فرمائی اور ظاہر ہے کہ ملاعلی قاری کا قول(وَيُفِيْدُ النَّسْخَ)اس مرکزی بات کا جواب نہیں اور نہ ہی (رَافِعِي أَيْدِيكُمْ) میں رکوع والا رفع الیدین مراد ہونے کی دلیل ہے صرف ملا علی قاری کا اپنا ایک دعویٰ ہے جس کی کوئی دلیل نہیں اورقاری صاحب خود ہی لکھا کرتے ہیں”دعویٰ بغیر دلیل کے خارج“ لہٰذا ملا علی قاری کا قول(وَيُفِيْدُ النَّسْخَ) خارج۔
قاری صاحب نے تقریباً ایک صفحہ صرف اس بات پر صرف کیا ہے کہ حدیثیں دو ہیں اور واقعہ بھی دو ہیں ایک سلام والا اور دوسرا غیر سلام والا مگر ان کی یہ ساری محنت اس مقام پر بے سود ہے کیونکہ بندہ نے تو پہلے ہی لکھ دیا تھا” لازم نہیں آتا کہ دونوں موقعوں پر رفع الیدین جدا جدا ہو(مَنِ ادَّعَى فَعَلَيْهِ البَيَانُ)
پھر قاری صاحب بزعم خود حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے دو
|