موقعوں پر رفع الیدین جدا جدا ہو(مَنِ ادَّعَى فَعَلَيْهِ البَيَانُ) بصورت تسلیم اتنی چیز سامنے آئے گی کہ خَرَجَ عَلَيْنَا والے واقعہ میں رفع الیدین عندالسلام مراد نہیں مگر اس سے یہ کیونکر ثابت ہوگا کہ اس سےرکوع والا رفع الیدین مراد ہے؟وَ مَنِ ادَّعَى فَعَلَيْهِ الْبُرْهَانُ (میرا رقعہ نمبر 1 ص10، 9)
اس چوتھے جواب کا بھی قاری صاحب سے کوئی جواب نہ بنا۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ قاری صاحب نے حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ والی روایت نقل کرنے کے بعد ملا علی قاری حنفی کا قول”یہ نسخ رفع الیدین میں مفید ہے“ذکر کیا ہے اور واضح ہے کہ یہ میری مندرجہ بالا بات کاجواب نہیں ہے کیونکہ ملا علی قاری حنفی کی یہ بات اس مقام پر ہمارے قاری جمیل احمد صاحب کے دعوائے نسخ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھی تو قاری صاحب کا ملا علی قاری کی بات(وَيُفِيْدُ النَّسْخَ) كو پیش فرمانا ان کے حضرت جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کو اپنے پانچویں رقعہ میں پہلے رقعہ کے بعد ایک دفعہ پھر ذکر کردینے کے مترادف ہے۔
باقی حضرت نواب صدیق الحسن خاں صاحب کا ملا علی قاری کو الشیخ اور العلامہ کے الفاظ سے یاد کرنا ملا علی قاری کی ہربات درست ہونے کی سند نہیں، دیکھئے نواب صاحب نے اپنی کتابوں میں کئی جگہ ملا علی قاری کی کئی باتوں کی پرزور تردید فرمائی ہے اور یہ بات تمام اہل علم کے ہاں مسلم ہے کہ ہرشیخ اور ہر علامہ کی ہربات دُرست نہیں ہوتی بھلا حضرت الامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جن کی آپ لوگ تقلیدبھی کرتے ہیں سے بڑھ کر ان سے بعد میں آنے والوں میں آپ کے ہاں کون الشیخ اور العلامہ ہوسکتا ہے؟ اس کے باوجود آپ کے ہاں بھی حضرت الامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی ہربات دُرست نہیں تو پھر ملاعلی قاری ایسے الشیخ اورالعلامہ کی ہر بات کیونکر درست ہوسکتی ہے؟ قاری صاحب! اب تو آپ کو حضرت ملا علی قاری کی صفت ”الشیخ اور العلامہ“ یاد آرہی ہے مگر صاحب مشکوٰۃ پر(وقال ابوداؤد ليس هو بصحيح الخ) والے وہم کا الزام
|