قاضی صاحب کا اس آیت سے استدلال سراسر غلط ہے ہاں اس آیت کریمہ میں جس چیز کی خبر دی گئی ہے وہ صرف اور صرف اس قدر ہے کہ ہم ان مثالوں کو لوگوں کےلیے بیان کرتے ہیں اور ان کو صرف جاننے والے سمجھتے ہیں۔
8۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ باعلم تو ان مثالوں کو سمجھتے ہیں اور بے علم ان مثالوں کو نہیں سمجھتے۔ جیسا کہ آیت میں موجود قصر سے واضح ہے تو اب ہم پوچھتے ہیں۔ بے علم جن کو حضرت قاضی صاحب اور ان کے ہمنوا مقلد بنانے پر تلےہوئے ہیں کسی باعلم سے پڑھ یا سن یا پوچھ کر ان مثالوں کو سمجھ لیں گے یا نہیں پہلی صورت تو ہونہیں سکتی ورنہ اللہ تعالیٰ کی خبر”بے علم ان مثالوں کو نہیں سمجھتے” کا واقع خلاف ہونا لازم آتا ہے جو محال ہے یاد رہے اس خبر میں بے علم کے ان مثالوں کو سمجھنے کی نفی عام ہے جو اس کے خود سمجھنے کسی سے پڑھ سن اور پوچھ کرسمجھنے اور کسی اور ذریعہ سے سمجھنے سب کی نفی کو شامل ہے۔ اور دوسری صورت میں اس کا کسی با علم سے پڑھنا، سننا اور پوچھنا عبث وبے فائدہ ہوجاتاہے۔ تو حضرت قاضی صاحب بتائیں اس آیت سے تقلید کاوجوب کیونکر نکلا ہاں اس آیت سے بے علم کا بے سمجھ ہونا ضرور ثابت ہوتا ہے۔ ( وَمَا يَعْقِلُهَا إِلَّا الْعَالِمُونَ)
9۔ اہل علم خصوصاً ائمہ اربعہ حضرت الامام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، حضرت الامام مالک رحمۃ اللہ علیہ، حضرت الامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت الامام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے مابین کافی مسائل میں تنازع اور اختلاف پایا جاتا ہے اور تنازع واختلاف کی صورت میں اللہ تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع فرض ہے قرآن مجیدمیں ہے:
(فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ ..................) (النساء 59 پ5)
”پس اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو رجوع کرو طرف اللہ کےاور رسول کےاگر یقین رکھتے ہو۔ “
|