تو کسی امام کی تقلید(جسے حضرت قاضی صاحب واجب قراردے رہے اور اپنے قول ”ہم تیسری شق کو لیتے ہیں“میں اختیار فرمارہے ہیں) کی صورت میں مندرجہ بالا حکم ربانی اور نص قرآنی کی مخالفت لازم آتی ہے جو ناجائز ہے لہٰذاکسی امام کی تقلید بھی ناجائز رہا ثقہ رواۃ کی روایت پر اعتبار کرناتو وہ ان کی مروی حدیث کی طرف رجوع ہے نہ کہ ان کے قول کی طرف اور تقلید میں کسی امام کی پیروی حدیث کی طرف رجوع نہیں ہوتا بلکہ امام کے قول کی طرف رجوع ہوتا ہے چنانچہ حنفی اصول فقہ کی معتبر کتاب مسلم الثبوت میں لکھاہے:” وأما المقلد فمستنده قول مجتهده لاظنه ولا ظنه. “ تو بندہ نے اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے چوتھی شق نکال کر حضرت قاضی صاحب کے مزعوم حصر عقلی کو توڑدیاہے نیز تیسری شق چھوڑ کر ان کو دکھا دی ہے۔ لہٰذا ان سے گزارش ہے کہ وہ جواب ضرور لکھیں مطالبہ پورا ہوچکا ہے تو اس وقت جن امور کا جواب دینا حضرت قاضی صاحب کے ذمہ ہے وہ کل سولہ ہیں تقلید اور وجوب کے معانی پر سات سوالات تقلید کے اثبات میں ان کے استدلال پرنو(9) تعقبات۔
حضرت قاضی صاحب سے مؤدبانہ اپیل ہے کہ پہلے وہ ان سولہ امور کا جواب دیں پھر دیکھیں آیت:
(وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ ۖ وَمَا يَعْقِلُهَا إِلَّا الْعَالِمُونَ)
یادیگر آیات نیز احادیث سے نفس تقلید کا وجوب ثابت ہوتا ہے یا نہیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتاتے جائیں قرآن وحدیث سے کسی امر کے وجوب پر خود بخود استدلال کرنا اجتہاد ہے یا تقلید؟پہلی صورت میں آپ کی تقلید ختم دوسری صورت میں آپ کے امام کا اجتہاد ختم۔ (ابن عبدالحق بقلمہ سرفراز کالونی جی ٹی روڈ گوجرانوالہ 13؍ذوالقعدہ 1401ھ)
|