Maktaba Wahhabi

703 - 896
تعالیٰ سےڈرو نا۔ پہلے تو آپ(لَيْسَ هُوَ بِصحِيْحٍ)کو ابوداؤد کا فیصلہ تسلیم ہی نہیں کرتے تھے۔ اب اس کی تاویل بلکہ تحریف کر رہیں ہیں ۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ اب آپ نے ( لَيْسَ هُوَ بِصحِيْحٍ)کے ابوداؤد کا فیصلہ ہونے کو تسلیم فرما ہے ورنہ آپ کو یہ تاویل بلکہ تحریف کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ 4۔ رابعاً، تھوڑی دیر کے لیے ہم اگران کی یہ طریق خاص والی بات تسلیم کرلیں تو پھر یہ روایت ابوداؤد کے اس طریق خاص سے تو قاری صاحب کے نزدیک بھی غیر صحیح ٹھہرے گی حالانکہ قاری صاحب خود ہی اپنے پہلے رقعہ میں اس روایت کو ترمذی، ابوداؤد، طحاوی اور مسند احمد کے حوالہ سے نقل کرکے اسے حسن اور صحیح قرار دے چکے ہیں تو قاری صاحب نے ابوداؤد والے طریق سے اس روایت کو اپنے پہلے رُقعہ میں توحسن اور صحیح سمجھا اور اب وہ خود ہی اپنے پانچویں رقعہ میں اسی روایت کو ابوداؤد والے طریق ہی سے غیر صحیح بنارہے ہیں۔ (وانما يوخذ بالآخر فالآخر) 5۔ خامساً، ابوداؤد والا طریق یہ ہے(وكيع عن سفيان عن عاصم بن كليب عن عبدالرحمان بن الاسود عن علقمة)پھر ترمذی، طحاوی اورمسند احمد والی روایتیں بھی اسی طریق سے ہی مروی ہیں تو ابوداؤد کے اس فیصلہ کو اس طریق کے ساتھ خاص کرنے سے ترمذی، طحاوی اور مسند احمد والی روایتوں کا صحیح نہ ہونا بھی ثابت ہوگیا۔ توفرمائیے صاحب!آپ کی یہ تاویل بلکہ تحریف صحتِ حدیث میں مضر ٹھہری یا نہ؟اُدھر قاری صاحب نے اپنے پہلے رقعہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کرنے کے بعد ترمذی، طحاوی، ابوداؤد اور مسنداحمد کا ہی حوالہ دیا ہوا ہے اور ان چاروں کی روایت ان کے اس”احتمال“ کی رو سے بھی صحیح نہ رہی تو واضح ہوگیا کہ قاری صاحب کی طرف سے اپنے پہلے رُقعہ میں پیش کردہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت صحیح نہیں۔
Flag Counter