قاری صاحب لکھتے ہیں”دوسری بات یہ کہ غیر مفسر ہے الخ“(قاری صاحب کا رقعہ نمبر 5 ص 15) بات تو ہورہی ہے کہ (لَيْسَ هُوَ بِصحِيْحٍ)امام ابوداؤد کا فیصلہ ہے یا نہیں؟صاحب مشكوٰة، حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ حافظ ابن عبدالبر، ملا علی قاری حنفی، علامہ میرک حنفی اور دیگر اہل علم کہتے ہیں کہ وہ امام ابوداؤد کا فیصلہ ہے قاری صاحب کا خیال ہے کہ نہیں تو ذرا سوچ سمجھ کر بتائیے کہ حضرت الامام ابوداؤد کے فیصلہ(لَيْسَ هُوَ بِصحِيْحٍ) کو قاری صاحب کے ”غیر مفسر“کہنے سے ان کا مدعیٰ”وہ ابوداؤد کا فیصلہ نہیں“ثابت ہوجائے گا؟نہیں ہرگز نہیں بلکہ ان کے اسے ”غیر مفسر“ قراردینے میں تو اس کے ابوداؤد کا فیصلہ ہونے کو تسلیم کرلینا پایاجاتا ہے جو قاری صاحب کے صاحب مشکوٰۃ پر وہم والے فتویٰ کے سراسرمنافی ہے۔ اگر قاری صاحب اپنی خاص طریق والی اورغیر مفسر والی باتوں کو دُرست قراردیں تو پھر ان کاصاحبِ مشکوٰۃ پر وہم والا فتویٰ غلط، اور اگر وہ اپنے صاحبِ مشکوٰۃ پر وہم والے فتویٰ کو درُست فرمائیں تو پھر ان کی طریق خاص اور غیر مفسر والی دونوں باتیں غلط، تو قاری صاحب کی طریق خاص اور غیر مفسر والی اور ان کے صاحبِ مشکوٰۃ پر وہم کے فتویٰ والی دونوں باتوں سے ایک بات تو لامحالہ غلط اور نادُرست ہے یہ بات تو ہم نے قاری صاحب کے بیانات کی روشنی میں کی ہے ورنہ ہمارے نزدیک تو قاری صاحب کی یہ دونوں باتیں بے بنیاد، غلط واقع کے خلاف اور ان سے ایک تو سراسربہتان ہے جیسے کہ تفصیل آپ پہلے سن چکے ہیں۔ نیز قاری صاحب کی غیر مفسر والی بات کو پہلے کئی دفعہ کئی وجوہ سے رد کیا جاچکا ہے۔ ان وجوہ کو سابقہ صفحات میں ایک مرتبہ پھر سے پڑھ لیں کیونکہ ان سے کئی وجوہ آپ یہاں بھی جاری کرسکتے ہیں۔ مثلاً حضرت الامام ابوداؤد کا فیصلہ(لَيْسَ هُوَ بِصحِيْحٍ الخ) کسی راوی پر کوئی جرح نہیں الخ قاری صاحب کے اس روایت کی تحسین وتصحیح میں نقل کردہ جملہ فیصلے بھی تو غیر مفسر ہی ہیں، پھر امام ابوداؤد نافی ہیں کہ یہ روایت صحیح نہیں اور قاری صاحب مثبت ومدعی ہیں کہ یہ روایت صحیح ہے اور اُصول کے
|