تیسری کو چھوڑ کر دکھائیں کہ کیا کرے۔ “
1۔ حضرت قاضی صاحب مدعی ہیں نفس تقلید کے وجوب کا قرآن کریم سے ثابت ہونا ان کا د عویٰ ہے اس لیے ان کاکام توتھا کہ تقلید کا وجوب قرآن کریم سے ثابت فرماتے مگر وہ تو ابھی تقلید اور وجوب کے صحیح معانی بھی بیان نہیں کرپائے بھلا وہ تقلید کےوجوب کو قرآن وحدیث سے کیاثابت کریں گے؟
2۔ حضرت قاضی صاحب اگر بندہ کے مندرجہ بالا سات سوالات کے جواب دیتے تو ان کے اس حصر عقلی کی حقیقت کھل کرسامنے آجاتی اب بھی وہ ان کے جواب دےکر ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔
3۔ حضرت قاضی صاحب اپنے ا س مقولہ کے آغاز میں لکھتے ہیں”جو آدمی خود ان مثالوں کا علم نہیں رکھتا” الخ اور تیسری شق میں فرماتے ہیں”کسی اہل علم کی تقلید میں عمل کرے“اور یہ بات آپ کے علم میں آچکی ہے کہ حضرت قاضی صاحب کے بیان کردہ تقلید کے معنی کی رو سے تقلید کرنے والے کا قبل از تقلید عالم ہونا ضروری ہے لہٰذا”کسی اہل علم کی تقلید میں عمل کرے“ کو خود علم نہ رکھنے والے کی شقوں میں شامل کرنا درست نہیں یا پھر تقلید کا حضرت قاضی صاحب کی جانب سے بیان کردہ معنی غلط ہے۔
4۔ قرآن وحدیث کسی اہل علم سے پڑھ یا سن یاپوچھ یا سمجھ کر عمل کرنا حضرت قاضی صاحب کی بیان کردہ تین شقوں کے علاوہ ایک چوتھی شق ہے تو حضرت قاضی صاحب کا قائم کردہ حصر عقلی ٹوٹ گیااور تیسری شق بھی چھوٹ گئی لہٰذااپیل کی جاتی ہے کہ حضرت قاضی صاحب جواب تحریر فرمائیں ان کا وقت ضائع نہیں ہوگا کہ ان کی شرط پوری ہوچکی ہے۔
5۔ دوسری شق”خود سمجھ کر عمل کرے“ میں اگر تقلید ملحوظ ہوتو پھر یہ اور تیسری شق ایک ٹھہریں گی اور اگر اس میں تقلید ملحوظ نہ ہوتو پھر اسے خود علم نہ رکھنے
|