مسائل کو کسی اہل علم سے پڑھے سنے پوچھے یا نہ پڑھے سنے پوچھے دونوں صورتوں میں وہ مقلد نہ رہے گا۔ لہٰذا ان کا یہ معنی کیسے صحیح ہو سکتا ہے۔
4۔ حضرت قاضی صاحب دوٹوک فیصلہ دیں مقلد عالم ہوتا ہے یا نہیں تو ان کی پہلی تینوں تحریریں نادرست کیونکہ ان میں مقلد کو بے علم قراردیا گیا ہے اور اگر وہ فرمائیں مقلد عالم نہیں ہوتا تو ان کا بیان کردہ تقلید کا معنی غلط کیونکہ اس کی روسے مقلد کا عالم ہونا ضروری ہے تو حضرت قاضی صاحب فیصلہ فرمائیں ان کا معنی تقلید درست ہے یا ان کی پہلی تین تحریرات ؟
5۔ حضرت قاضی صاحب کے معنی کے لحاظ سے مقلد کا قبل از تقلید قرآن و حدیث سے ثابت شدہ مسائل کا عالم ہو نا ضروری ہے تو اگر اس کا یہ قبل از تقلید علم بھی تقلیداً ہو اور ایسے ہی اس سے پہلے الی غیر النہایہ توتسلسل لازم آئے گا ورنہ تقلید ختم۔
یہ پانچ سوال تو تقلید کے معنی سے متعلق تھے رہےواجب سے متعلق دو سوال تو وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
6۔ حضرت قاضی صاحب نے واجب کا معنی بیان کرتے ہوئے صرف اس کی دلیل کی کیفیت لکھی ہے اس لیے ان سے گزارش ہے کہ وہ اس کے فعل و ترک کی کیفیت بھی بیان فرمادیں؟
7۔ حضرت قاضی صاحب یہ تحریر کریں کہ وجوب کا درجہ ان کے ہاں شرعی ہے یا اصطلاحی؟
ان سات سوالات کو ذہن نشین کرنے کے بعد حضرت قاضی صاحب کی پانچویں تحریر ملاحظہ فرمائیں وہ لکھتے ہیں ”صرف پوچھنایہ ہے کہ جو آدمی خود ان مثالوں کا علم نہیں رکھتا اس کے لیے مندرجہ ذیل تین شقوں میں حصر عقلی ہے یانہیں۔ (1)عمل واجب نہ ہو(2)خود سمجھ کر عمل کرے(3)کسی اہل علم کی تقلید میں عمل کرے۔ ہم تیسری شق کو لیتے ہیں آپ چوتھی شق نکال کر حصر عقلی کو توڑیں یا ان تین شقوں میں سے
|