بے کار ہے۔
قاری صاحب مزید لکھتے ہیں:” پھر یہ جرح بھی غیرمفسر ہے“( ان کا رقعہ نمبر 5 ص 11) اس کے وہی چار جواب ہیں جو پہلے قاری صاحب کے حافظ دارقطنی کے فیصلے(لم يثبت) کو غیر مفسر کہنے پر لکھے جاچکے ہیں انہیں ایک دفعہ پھر سن لیں۔
1۔ اولاً حافظ ابن حبان نے یہ کوئی کسی راوی پر جرح نہیں کی کہ آپ اسے غیر مفسر کہہ کہ ٹال دیں یہ تو انھوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت سے متعلق اپنا فیصلہ (وهو في الحقيقة اضعف شي ء الخ) سنایا ہے،
2۔ ثانیاً: قاری صاحب!آپ نے بھی جتنے فیصلے اس روایت کی تحسین و تصحیح میں نقل فرمائے وہ سب کے سب غیر مفسر ہی تو ہیں لہٰذا وہ بھی مردود ورنہ اس مقام پر حافظ ابن حبان کے فیصلہ پر غیر مفسر والا اعتراض کیوں؟
3۔ ثالثاً: بات تو ہو رہی ہے (وهو في الحقيقة اضعف شي ء الخ) کے حافظ ابن حبان کا فیصلہ ہونے پر اور اس کے غیر مفسر ہونے یا اسے غیر مفسر کہنے سے اس فیصلہ کے حافظ ابن حبان کا فیصلہ ہونے کی نفی نہیں ہوتی بلکہ اس بات میں اس کے حافظ ابن حبان کا فیصلہ ہونے کا اقرار واعتراف ہے۔
4۔ رابعاً: حافظ ابن حبان کا فیصلہ (وهو في الحقيقة اضعف شي ء الخ) کے بعد اس فیصلہ کی وجہ(لِأَنَّ لَهُ عِلَلًا تُبْطِلُهُ) بھی موجودومذکور ہے تو ان کا یہ فیصلہ غیر مفسر نہ رہابلکہ مفسر ہوگیا ہاں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ حافظ ابن حبان نے ان علتوں کو اس مقام پر ذکر نہیں کیا مگر یہ کوئی قابل التفات بات نہیں کیونکہ اس روایت کی علتیں محدثین کے ہاں مشہور معروف ہیں اور ان علتوں میں وہ علت بھی شامل ہے جس کو امام بخاری اور امام ابوحاتم رازی نے بیان کیاہے۔ نیز وہ علت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے شیخ اوراُستاذ حضرت یحییٰ بن آدم سے بھی مروی ہے
|