Maktaba Wahhabi

680 - 896
لیے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کئی سندوں سے یہ روایت مروی ہے پتہ نہیں ان کا کس سند پر اعتراض ہے۔ “(قاری صاحب کارقعہ نمبر5 ص11) قاری صاحب کی یہ بات کئی ایک وجوہ کی بناء پر ناقابل قبول ہے۔ 1۔ اولاًتو اس لیے کہ حافظ ابن حبان نے اپنے فیصلہ(وهو في الحقيقة اضعف شيءالخ) میں کسی خاص سند کی طرف کوئی ادنیٰ سا اشارہ بھی نہیں فرمایا صرف حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی حدیث کو ضعیف ترین شے قرار دیاہے خواہ وہ کسی سند سے مروی ہے کیونکہ قاعدہ ہے نا(العبرة بعموم اللفظ) لہٰذا قاری صاحب کی”کس سند“ والی بات بے بنیاد ہے۔ 2۔ ثانیاً، اس لیے کہ پتہ نہ ہونا قاری صاحب کا قصور ہے نہ کہ حافظ ابن حبان کا:(قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ) پہلے کا اشارہ کیا جاچکاہے کہ حافظ ابن حبان کا فیصلہ(وهو في الحقيقة اضعف شي ء الخ) حضرت عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کی ہر سند سے متعلق ہے۔ 3۔ ثالثاً، اس لیے کہ کسی محدث کا کسی روایت سے متعلق ضعیف یا اضعف ہونے کا فیصلہ ضروری نہیں کہ ضعفِ سندپر مبنی ہو کیونکہ ضعف سند کے علاوہ کئی اوراُمور بھی ضعف کے اسباب ہوتے ہیں(كما لا يخفى على من له أدنى بصيرة) 4۔ رابعاً، اس روایت کی سند(علقمة عن عبداللّٰه بن مسعود) تو پہلے کئی دفعہ گزر چکی ہے تو علقمہ کےعلاوہ دوسرے راویوں کے اس روایت کو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کرنے والی سندوں کو قاری صاحب پیش فرمائیں کیونکہ وہ فرمارہے ہیں”حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے کئی سندوں سے یہ روایت مروی ہے“ نیز ان سندوں سے اس روایت کا قابل احتجاج ہونا ثابت فرمائیں ان امور کو سرانجام دیے بغیر آپ کا فرمانا پتہ نہیں ان کا کس سند الخ“
Flag Counter