Maktaba Wahhabi

672 - 896
قاری صاحب کا”میں نے وہ حدیث پیش کی تھی الخ“کہہ کر طحاوی والی روایت کے پیش کرنے سے انکار و فرار کیسا اور کیوں ؟اللہ تعالیٰ سے خود بھی توڈرونا۔ 9۔ تاسعاً:قاری صاحب کا اپنے پہلے رقعہ میں ترمذی والی روایت نقل کر کے طحاوی کا حوالہ بھی ذکر فرمانا اس بات کی بین دلیل ہے کہ انھوں نے اپنے پہلے رقعہ میں ترمذی اور طحاوی والی روایتوں کو ایک ہی روایت اور حدیث قراردیا ہے لہٰذا جو تضعیف روایت کے فیصلے طحاوی والی روایت سے متعلق ہوں گے وہ تمام کے تمام فیصلے ترمذی والی روایت سے متعلق بھی ہوں گے کیونکہ وہ دونوں روایتیں قاری صاحب کے پہلے رقعہ کے مطابق دراصل ایک ہی روایت ہیں لہٰذا حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کا فیصلہ(وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ الخ )اور ابو حاتم کافیصلہ(هذاحديث خطاء) دونوں ہی ترمذی، ابو داؤداور نسائی والی روایت سے بھی متعلق ہیں۔ 10۔ عاشراً: آپ لوگوں نے دیکھ لیا کہ قاری صاحب جب حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کی تصحیح و تحسین پر گفتگو فرماتے ہیں تو پھر وہ ترمذی، ابو داؤد اور طحاوی والی روایتوں کو ایک ہی روایت قراردیتے ہیں اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ حسن اور ابن حزم کے صحیح کہنے کو ان سب پر چسپاں کرتے ہیں اور جوں ہی وہ حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کےفیصلہ (وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ الخ ) نیز ابو حاتم رازی کے فیصلہ (هذاحديث خطاء) پر پہنچتے ہیں تو پھر طحاوی والی روایت کو جدا اور ترمذی، ابو داؤد اور نسائی والی روایت کو جدا بنا دیتے ہیں آیا انصاف اور اللہ تعالیٰ کا ڈراسی کا نام ہے؟کہیں بات یہی تو نہیں کہ پہلی صورت ان کے مذہب کے موافق اور دوسری ان کے مذہب کے مخالف ہے؟
Flag Counter