نزدیک (قاری صاحب کے نزدیک) طحاوی والی روایت سے متعلق ہیں اور طحاوی والی روایت قاری صاحب کے نزدیک بھی خطاء اور غیر ثابت ہے ورنہ ان دو بزرگوں کے فیصلوں کو طحاوی والی روایت سے متعلق قراردینے کا انہیں فائدہ؟ کیونکہ ان کے فیصلوں کو نہ ماننے والی بات تو وہ ان کے دوسری روایات سے متعلق ہونے کی صورت میں بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ کہنے اور تسلیم کرنے کے بعد قاری صاحب ہی لکھتے ہیں”لیکن امام ابو حاتم کا نرا وہم ہے اور یہ حدیث بھی اپنے [1]مقام صحیح ہے۔ “(قاری صاحب کا رقعہ نمبر5ص9) تو قاری صاحب ہی اپنے اس بیان میں طحاوی والی روایت کو صحیح کہہ رہے ہیں جبکہ پہلے وہ خود ہی حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے فیصلہ (وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍالخ)کو طحاوی والی روایت سے متعلق کہہ کر اس طحاوی والی روایت کے غیر ثابت ہونے کو تسلیم فرما چکے ہیں تو دیکھ لیا قاری صاحب حال اپنا فیا للعجب۔
8۔ ثامناً:قاری صاحب لکھتے ہیں”تو مولانا صاحب میں نے وہ حدیث پیش کی تھی جس میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا نقشہ پڑھ کر دکھایا تھا“(ان کا رقعہ نمبر5ص9) بندہ وہ روایت آپ کے سامنے رکھ دیتا ہے جس کو قاری صاحب نے اپنے پہلے رقعہ میں پیش کیا تھا چنانچہ ملاحظہ ہو وہ خود ہی لکھتے ہیں(عَنْ عبداللّٰه ا بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ:أَلاَ أُصَلِّي لَكُمْ1 صَلاَةَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَصَلَّى، وَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ2 إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ)
یہ روایت ترمذی ج1ص64اور طحاوی ج1ص110 اور مسند احمد ج1ص4420 میں مذکورہے الخ“(قاری صاحب کا رقعہ نمبر1ص1)تو قاری صاحب کا اپنے پہلے رقعہ میں طحاوی کا حوالہ بھی پیش کرنا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ انھوں نے طحاوی والی روایت بھی پیش کی تھی تو اب
|