مسعود رضی اللہ عنہ کی ترمذی، ابو داؤد اور نسائی میں مذکور روایت سے بھی متعلق ہے لہٰذا ابو حاتم رازی کا فیصلہ بھی حافظ زیلعی حنفی کی مندرجہ بالا عبارت کی روشنی میں ترمذی، ابو داؤد اور نسائی والی روایت سے بھی متعلق ہو گا تو اب قاری صاحب کو چاہیے کہ وہ اپنا قول”دیکھ لیا مولانا صاحب حال اپنا کہ بغیر تحقیق کے فرما دینا کہ فلاں یوں کہتا ہے فلاں یوں فیا للعجب“شوق صاحب نیموی حنفی اور حافظ زیلعی حنفی پر بھی چسپاں کریں کیونکہ انھوں نے بھی حافظ ابو حاتم رازی کے فیصلہ (هذاحديث خطاء) کو اسی روایت کے متعلق قراردیا ہے جس روایت سے متعلق اس بندہ نے اسے قراردیا ہے۔
6۔ سادساً: بندہ نے حافظ ابو حاتم رازی کے فیصلہ سے متعلق جو کچھ کہا وہ کوئی اپنی طرف سے نہیں کہا تھا بلکہ تلخیص کے حوالہ سے حافظ ابن حجر کی تحقیق نقل کی تھی لہٰذا یہ سب حال حافظ ابن حجر کی تحقیق کا حال ہوااس لیے قاری صاحب اگر آپ نے تعجب کرنا ہے تو حافظ ابن حجر کی تحقیق پر تعجب کیجیے یا یوں کہئے کہ حافظ ابن حجر نے ابو حاتم رازی کے فیصلہ (هذاحديث خطاء) کو ترمذی، ابو داؤد اور نسائی والی روایت سے متعلق قرارنہیں دیا بات تو بار بط کیجیے۔
7۔ سابعاً: قاری صاحب پہلے لکھ چکے ہیں”تیسری روایت طحاوی میں ہے (اَنَّ النَّبُّيِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الخ) اس کے الفاظ جرح سے ملتے ہیں اور حضرت ابن المبارک کی جرح بھی اسی حدیث کے بارے میں ہے۔ “(قاری صاحب کا رقعہ نمبر5ص5)
نیز قاری صاحب کتاب العلل سے طحاوی والے الفاظ سے ملتے جلتے الفاظ سے روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں”تو ابو حاتم نے فرمایا(اس طریقہ سے) یہ حدیث خطا ہے“(قاری صاحب کا رقعہ نمبر5ص7) تو قاری صاحب کے ان دونوں بیانوں سے پتہ چل رہا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مبارک کا قول (وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ) اور ابو حاتم کا قول (هذاحديث خطاء) دونوں ہی ان کے
|