Maktaba Wahhabi

669 - 896
3۔ ثالثاً، قاری صاحب کی یہ بات ابن ابی حاتم کے سوال میں مذکورہ عبارت( اَنَّ النَّبُّيِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الخ)کےحضرت عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہونے پر موقوف ہے لہٰذا قاری صاحب پہلے اسے تو ثابت فرمالیں بعد میں یہ بات بھی بنالینا تو جب مدار ہی ثابت نہیں تو اس پر دائر بات کیونکر دُرست ہوسکتی ہے؟ 4۔ رابعاً:قاری صاحب نے اس مقام پر بھی اپنی اس بات کی بنیاد”الفاظ ملنے جلنے“والے قاعدہ پر رکھی ہے اور پہلے آپ سن چکے ہیں کہ انہوں نے اس کی کوئی دلیل پیش نہیں فرمائی تو ان کا فرض ہے کہ پہلے اپنے اس قاعدہ کو ثابت فرمائیں پھر اس کے بعد اس قسم کی باتیں بنائیں۔ 5۔ خامساً، کئی ایک حنفی بزرگوں نے بھی حافظ ابوحاتم رازی کے فیصلہ کو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ترمذی، ابو داؤد اور نسائی میں مذکور روایت سے بھی متعلق قراردیا ہے جن سے صرف دو حنفی بزرگوں کے اسماء گرامی اس مقام پر ذکر کیے جاتے ہیں۔ (1)شوق صاحب نیموی حنفی جیساکہ ان کے مندرجہ بالا کام سے واضح ہے۔ (2)صاحب نصب الرایہ حافظ زیلعی حنفی چنانچہ انھوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ترمذی، ابو داؤد اور نسائی کے حوالہ سے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: (أن البخاري وأبا حاتم جعلا الوهم فيه من سفيان وابن القطان وغيره يجعلون الوهم فیہ من وكيع وهذا اختلاف يؤدى إلى طرح القولين) اس عبارت سے واضح ہے کہ ابو حاتم رازی کا فیصلہ (هذاحديث خطاء) اسی روایت سے متعلق ہے جس روایت سے ابن القطان کا فیصلہ متعلق ہے اور قاری صاحب ہی کے رقعوں سے واضح ہو رہا ہے کہ ابن القطان کا فیصلہ حضرت عبد اللہ بن
Flag Counter