Maktaba Wahhabi

66 - 896
کہ اہل علم کی تقلید میں ان سے پوچھ کر اس پرعمل کرے“تو حضرت قاضی صاحب دو ٹوک فیصلہ دیں مقلد عالم ہوتا ہےیا نہیں؟اگر وہ فرمائیں مقلد عالم ہوتا ہے تو اس صورت میں ان کی ان پہلی تینوں تحریروں کی تردید ہو جاتی ہے۔ کیونکہ انھوں نے خود ہی ان میں مقلد کو بے علم قراردے رکھا ہے اور اگر وہ فرمائیں مقلد عالم نہیں ہوتا تو پھر اس میں ان کے اپنی اس چوتھی تحریر میں بیان کردہ تقلید کے معنی کی تغلیط ہو جاتی ہے کیونکہ اس معنی کی روسے مقلد کا عالم ہونا ضروری ہے۔ لما تقدم۔ 5۔ حضرت قاضی صاحب نے مذکوربالا بیان کردہ معنی کے اعتبار سے تقلید کرنے والےشخص کی تقلید کرنے سےپہلے قرآن واحادیث سے مسائل ثابتہ کا عالم ہونا ضروری ہے لما تقدم اور اگر اس کا یہ قبل از تقلید علم بھی تقلیداً ہو اور ایسے ہی اس سے پہلے الی غیر النہایہ تو تسلسل لازم آئے گاورنہ تقلید ختم۔ حضرت قاضی صاحب واجب کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں”واجب وہ ہے جو دلیل قطعي الثبوت ظني الدلالة يا ظني الثبوت قطعي الدلالة سے ثابت ہو“تو حضرت قاضی صاحب نے اپنے اس قول میں واجب کی دلیل کی کیفیت و حالت تو بیان فرمادی مگر اس کے فعل(کرنے) اور ترک (نہ کرنے) کی کیفیت و حالت کو انھوں نے بیان نہیں کیا اس لیے ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ اس کے فعل (کرنے) اور ترک (نہ کرنے) کی کیفیت وحالت بھی واضح کریں آیا اس کا فعل (کرنا)ضروری لازمی حتمی اور جزمی ہے یا نہیں پھر اس کا ترک (نہ کرنا)منع ہے یا نہیں تاکہ واجب کا پورا پورا معنی سامنے آجائے نیز وہ بتائیں کہ وجوب کا درجہ ان کے ہاں شرعی ہے یا اصطلاحی؟ رہا حضرت قاضی صاحب کا قول ”ایک اور حدیث جس کو چھپاتے اور اس کی خلاف ورزی الخ“تو وہ خلاف واقع ہونے کے ساتھ ساتھ اس بات چیت کے موضوع حضرت قاضی صاحب کے اپنے ہی دعویٰ”نفس تقلید کے وجوب“سے بالکل
Flag Counter