فہرست میں شامل ہوتے ہیں کیونکہ وہ سبھی قرآن اور احادیث سے مسائل ثابتہ کو اپنے اساتذہ کرام سے پڑھ سن کر عمل کیا کرتے تھے اور بدیہی بات ہےکہ جو معنی مجتہد پر صادق آجائےاور پوری امت مسلمہ کو اپنی لپیٹ میں لے لے وہ معنی تقلید کا تو ہرگز نہیں ہو سکتا کیونکہ کوئی مجتہد بھی مقلد نہیں ہوتا اور نہ ہی ساری امت مسلمہ مقلد ہے۔
3۔ حضرت قاضی صاحب کا معنی بتا رہا ہے کہ مقلد جن مسائل کو کسی اہل علم سے پڑھ سن کر اپنائے گا ان مسائل کا قرآن اور احادیث سے ثابت ہونا نیز ان مسائل کے قرآن اور احادیث سے ثابت ہونے کا اس کو علم ہونا ضروری ہے”لِاَنَّ مَا يَتَوَقَّفُ عَلَيْهِ الْواجِبُ وَاجِبُ“ ورنہ اسے پتہ نہیں چل سکے گا کہ وہ مسائل ثابتہ پڑھ سن رہا ہے یا مسائل غیر ثابتہ۔ اور واضح ہے، جب اسے ان مسائل کے قرآن اور احادیث سے ثابت ہونے کا علم ہو گیا تو پھر وہ ان مسائل کو کسی اہل علم سے پڑھے سنے یا نہ پڑھے سنے دونوں صورتوں میں مقلد نہ رہے گا۔
4۔ حضرت قاضی صاحب کے اس معنی سے واضح ہو رہا ہے کہ تقلید کرنے والا شخص جن مسائل میں کسی اہل علم کی تقلید کرتا ہے اس کو ان مسائل کے قرآن اور احادیث سے ثابت ہونے کا لازماً علم ہوتا ہے۔ ”لِاَنَّ مَا يَتَوَقَّفُ عَلَيْهِ الْواجِبُ وَاجِبُ“حالانکہ ان کی اپنی ہی پہلی تین تحریروں سے واضح ہے کہ تقلید کرنے والا شخص بے علم ہوتا ہے چنانچہ وہ اپنی پہلی تحریر میں فرماتے ہیں۔ ”ان مثالوں پر عمل کرنا تو سب لوگوں پر واجب ہے اور ان کو سمجھنا صرف علم والوں کاکام ہے تو دوسروں پر واجب ہے کہ ان سے پوچھ کر ان پر عمل[1]“اپنی دوسری تحریر میں لکھتے ہیں سوال یہ پوچھنا ہے کہ جو آدمی علم نہیں رکھتا وہ ان مثالوں پر عمل کس طرح کرے۔ کسی اہل علم کی تقلید میں یا بلا تقلید“اور اپنی تیسری تحریر میں بیان کرتے ہیں”البتہ جو علم نہیں رکھتا اس پر واجب ہے
|