پر عمل کرنا”اور یہ بات(اظہر من الشمس ہے) کہ قرآن اور احادیث سے مسائل ثابتہ کا دلیل ہونا ناممکن ہے ورنہ وہ مسائل قرآن اوراحادیث سے ثابتہ نہ رہیں گے۔
دوسرافرق:ابن ہمام حنفی کے بیان فرمودہ معنی کے اعتبار سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھ سن کر عمل کرنا تقلید نہیں کیونکہ انھوں نے فرمایا ہے: بقول من ليس قوله إحدى الحجج اور ہر مسلمان جانتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال اوراعمال شرعی دلائل ہیں، ادھر حضرت قاضی صاحب کے بیان کردہ معنی کی روسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےپڑھ سن کر عمل کرنا بھی تقلید ہے کیونکہ ان کا قول ہے”تقلید کے معنی ہے کسی اہل علم سے قرآن اور احادیث سے مسائل ثابتہ۔۔ ۔ الخ “۔ اور کسی اہل علم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل ہیں۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وَمَا يَعْقِلُهَا إِلَّا الْعَالِمُونَ میں شامل ہیں۔
تو حضرت قاضی صاحب اور ابن ہمام حنفی کے بیان کردہ تقلید کے دونوں معانی درست نہیں ہو سکتے کیونکہ حضرت قاضی صاحب کے معنی، جس چیز کااثبات ہے ابن ہمام حنفی کے معنی میں اس کی نفی ہے اورقاضی صاحب کے معنی میں جس چیز کی نفی ہے ابن ہمام حنفی کے معنی میں اس کا اثبات جیسا کہ مندرجہ بالا بڑے دوفرقوں سے واضح ہو رہا ہے تو لامحالہ ان دو معنوں سے ایک معنی نادرست ہے تو اب حضرت قاضی صاحب ہی فرمائیں آیا ان کا اپنا معنی درست ہے یا ابن ہمام حنفی کا؟
یادرہے ابن ہمام حنفی تقلید کا مذکوربالا معنی بیان کرنے میں اکیلے نہیں بلکہ صاحب مسلم الثبوت صاحب تاریخ التشریع الاسلامی اور دیگربزرگوں نے بھی ان کے معنی سے ملتا جلتا معنی ہی بیان کیا ہے۔
2۔ حضرت قاضی صاحب کے بیان کردہ معنی کے لحاظ سے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین عظام علیہم السلام، حضرت الامام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، حضرت الامام مالک رحمۃ اللہ علیہ، حضرت الامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت الامام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سمیت پوری امت مسلمہ کے تمام مجتہدین بھی مقلدین کی
|