Maktaba Wahhabi

655 - 896
2۔ ثانیاً: قاری صاحب کے اس عندیہ کی بنیاد”الفاظ کا ملنا جلنا“ہے مگر انھوں نے اس بنیاد کی کوئی دلیل نہیں دی لہٰذا ان کا یہ عندیہ صحیح نہیں باقی طحاوی، ترمذی، نسائی اور ابو داود کی روایات کے معنی کا ایک ہونا مسلم ہے (دیکھئے حاشیہ آثار السنن) 3۔ ثالثاً:چند منٹ کے لیے ہم اس بنیاد کو تسلیم کر لیتے ہیں لیکن عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے فیصلہ کے الفاظ طحاوی میں مذکور الفاظ سے بھی نہیں ملتے چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے فیصلہ کے الفاظ ہیں (وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَرْفَعْ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ)( ترمذی) اور طحاوی کے الفاظ ہیں (عن عبد اللّٰه عَنِ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ في أوَّلِ تَكبيرَةٍ ثُمَّ لَا يَعُودُ)(طحاوی) ان دونوں میں جو تفاوت ہے وہ آپ کےسامنے ہے اور اس کا نتیجہ یہ کہ حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کا فیصلہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت پر بالکل چسپاں ہی نہیں ہوتا کیونکہ ان کے فیصلہ کے الفاظ تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی متعدد الفاظ میں سے کسی ایک لفظ سے بھی نہیں ملتے تو اب مقام غور ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ تو فرمائیں (وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍالخ )اور ان کا یہ فرمان حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی کسی روایت پر چسپاں نہ ہو تو اس سے بڑھ کر اور کون سی چیز”نرے تعصب“اور کم عقلی“کا مصداق بنے گی؟ 4۔ رابعاً: حافظ بیہقی نے حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے فیصلہ کے الفاظ یوں نقل کیے ہیں۔ (لم يثبت عندى حديث ان مسعود - ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم رفع يديه اول مرة ثم لم يرجع)اور حافظ دارقطنی نے یوں (لم يثبت عندى حديث بن مسعود - ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم رفع يديه اول مرة ثم لم يرفع)اور ترمذی کے نقل کردہ الفاظ بھی آپ کے سامنے ہیں تو جس طرح حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے فیصلہ کے یہ سب الفاظ
Flag Counter