حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کا فیصلہ(وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ)الخ کس روایت سے متعلق ہے۔
مندرجہ بالا پانچ الفاظ نقل کرنے کے بعد قاری صاحب لکھتے ہیں”ان روایات کے ملاحظہ کرنے کے بعد[1]آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ جرح کے الفاظ تیسری حدیث طحاوی والی کے الفاظ حدیث سے ملتے جلتے ہیں ان باقی روایات سے اس جرح کا کوئی تعلق نہیں اس تفصیل کے بعد بھی اگر کوئی مولنا صاحب اس حدیث پر ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کی جرح چسپاں کرنے کی کوشش کریں تو اس کا نرا تعصب یا کم عقلی ہے۔ “(قاری صاحب کا رقعہ نمبر5ص7)
قاری صاحب کا نظریہ تو آپ نے ملاحظہ فرما لیا کہ حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ(وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ الخ ) طحاوی میں مذکور روایت ہی سے متعلق ہے اور دیگر چار روایتوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں اور ان کا ”نرے تعصب“اور”کم عقلی والا معقول اور غیر متعصبانہ فتوی بھی آپ نے پڑھ لیا۔ اب قاری صاحب کے متذکرہ بالا عندیہ کا رد ملاحظہ ہو۔
1۔ اولاً قاری صاحب حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی روایت کو ترمذی اور طحاوی کے حوالہ سے نقل فرما کر اسے اپنے پہلے رقعہ میں صحیح اور حسن قراردےچکے ہیں تو پتہ چلا کہ قاری صاحب نے ترمذی اور طحاوی کی روایتوں کو اختلاف الفاظ کے باوجود ایک ہی سمجھا ہے تو اب اگر قاری صاحب حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے فیصلہ (وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ الخ ) کو طحاوی والی روایت سے متعلق قراردیں تو بھی وہ خود بخود ترمذی والی روایت پر چسپاں ہو جائے گا تو قاری صاحب کے ان دو فیصلوں سے ایک فیصلہ ضرور بالضرور غلط ہے۔
|