Maktaba Wahhabi

635 - 896
ان کا بزعم خود یہ جواب فی الواقع جواب کیسے؟پھر قاری صاحب کا فرمانا”کوئی تفصیل نہیں بیان فرمائیں[1] “ واقع کے سراسر خلاف ہے کیونکہ موقوف روایت کی ایک تفصیل تو بندہ کی عبارت میں موجود اور مذکور ہے اور لطف کی بات ہے کہ قاری صاحب نے خود بھی میری اس ایک تفصیل کو اپنے اسی رقعہ میں اپنے اس جواب سے تھوڑاسا پہلے نقل بھی کیا ہے چنانچہ وہ میری عبارت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں”اہل علم کو معلوم ہے موقوف روایت فعلی ہو خوا ہ قولی شرعی دلائل میں سے کوئی سی دلیل بھی نہیں“(قاری صاحب کا رقعہ نمبر 5 ص3) کیوں جی قاری صاحب!”فعلی ہو خواہ قولی“والی تفصیل تو بندہ نےبیان کی ہوئی ہے نالہٰذا آپ کا فرمانا”کوئی تفصیل نہیں بیان فرمائیں“سراسرغلط ہے، ہاں آپ یہ کہہ سکتے تھے کہ جو تفصیل میرے ذہن میں معہود ہے اس کوتونے بیان نہیں کیا مگر یہ میراکام نہیں آپ کا کام ہے آپ وہ تفصیل بیان فرمائیں پھر قاری صاحب کی بات”لہٰذا مری 2 طرف سے بھی کوئی تفصیل نہیں ہوگی“ بہت ہی عجیب ہے۔ آخر اس سے قاری صاحب کو فائدہ؟ قاری صاحب مزید لکھتے ہیں” مولنا 3 صاحب کا یہ فرمانا کہ اہل علم کو معلوم ہے کہ موقوف روایت کا 4 شرعی دلیل 5 میں سے کوئی بھی نہیں۔ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ اہل علم سے مراد کون سے اہل علم مراد6 ہیں“۔ (قاری صاحب کا رقعہ نمبر 5 ص 3) 1۔ اولاً حضرت قاری جی نے بندہ کی عبارت کو اسی طرح نقل کیا ہے حالانکہ میری عبارت اس طرح بالکل نہیں ہے چنانچہ اسے من وعن نیچے درج کیاجاتا ہے تاکہ آپ لوگ فرق معلوم کرلیں تو سنیں وہ یہ ہے”اہل علم کو معلوم ہے کہ موقوف روایت فعلی ہو خواہ قولی شرعی دلائل میں سے کوئی سی دلیل بھی نہیں کیونکہ شرعی دلائل صرف چار ہیں، الخ۔ (میرا رقعہ نمبر 1 ص 2)
Flag Counter