ملتے جلتے ہیں ان باقی روایات سے اس جرح کا کوئی تعلق نہیں۔ اس تفصیل کے بعد بھی اگر کوئی مولانا صاحب پر اس حدیث ابن مبارک کی جرح چسپاں کرنے کی کوشش کریں تو اس کا نراتعصب یاکم عقلی ہے۔
آگے لکھتے ہیں مولانا صاحب:
(قال الحافظ ابن حجر في التلخيص: وهذا الحديث حسنه الترمذي وصححه ابن حزم وقال ابن المبارك لم يثبت عندي وقال ابن أبي حاتم عن أبيه :هذا حديث خطأ. وقال أحمد بن حنبل وشيخه يحيى بن ادم: هو ضعيف نقله البخاري عنهما)
(مولانا صاحب یہ دلائل آپ شوافع وغیرہ کے پیش کر رہے ہو آپ جیسے عالم کے لیے یہ مناسب نہیں، اور دوسری بات یہ کہ ہے بھی غیر صفر الخ) اور کہا حافظ ابن حجر تلخیص میں کہ اس حدیث کو یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کو امام ترمذی نے حسن کہا ہے اور ابن حزم صحیح کہا ہے اور حضرت عبد اللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ وہ میرے ہاں ثابت نہیں(اس کا جواب مفصل گزر چکا ہے) اور ابو حاتم کہتے ہیں یہ روایت خطاء ہے اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے شاگرد حضرت یحییٰ بن آدم رحمۃ اللہ علیہ دونوں فرماتے ہیں وہ روایت ضعیف ہے۔ الخ۔
اب ترتیب وار ان کے جوابات سنیے مولانا صاحب!
حضرت ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ میرے ہاں ثابت نہیں اس کا جواب اسی رقعہ کے ص5اور صفحہ 7پر ملاحظہ فرمائیں۔ اور آپ کا یہ کہنا کہ ابو حاتم کہتے ہیں کہ یہ روایت خطاء ہے تو مولانا صاحب اس کا جواب سنیے۔ جس حدیث پر امام ابو حاتم نے جرح کی ہے اس کے الفاظ اس طرح ہیں:
(وقال ابن أبي حاتم في كتاب العلل ج 1 ص 96 : سألت أبي عن حديث رواه سفيان الثوري عن عاصم بن كليب عن عبدالرحمان
|