کریم سےثابت[1] وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ ۖ وَمَا يَعْقِلُهَا إِلَّا الْعَالِمُونَ[2]الخ
”اور یہ مثالیں بیان کرتے ہیں ہم لوگوں کے واسطے اور ان کو سمجھتے وہی ہیں جن کو سمجھ ہے۔ “
اہل علم کو معلوم ہے کہ جب تک دعویٰ میں مذکور الفاظ کے معانی متعین نہ ہوں اس وقت تک معلوم نہیں ہو سکتا کہ وہ دعویٰ مدعی کی پیش کردہ دلیل سے ثابت ہو بھی رہا ہے یا نہیں، اور الفاظ دعویٰ کے معانی مدعی ہی متعین کیا کرتا ہے یا پھر اس کا کوئی وکیل۔
لہٰذا جناب ماسٹر صاحب سے اپیل ہے کہ وہ حضرت قاضی صاحب سے ان کے اپنے ہی دعوے میں مذکور الفاظ تقلید اور وجوب کے معانی متعین کروائیں کہ وہ اس مقام پر تقلید، نفس تقلید اور وجوب سے کیا کیا معانی مراد لے رہے ہیں تاکہ جائزہ لیا جا سکے آیا ان کا دعوی”نفس تقلید کا وجوب“اللہ تعالیٰ کے قول” وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ ۖ وَمَا يَعْقِلُهَا إِلَّا الْعَالِمُونَ “سے ثابت ہوتا بھی ہے یا نہیں؟(ابن عبدالحق بقلمہ سرفراز کالونی جی ٹی روڈ گوجرانوالہ 23؍شوال 1401ھ)
حضرت القاضی (2):
سوال یہ پوچھنا ہے کہ جو آدمی علم نہیں رکھتا وہ ان مثالوں پر عمل کس طرح کرے اہل علم کی تقلید میں یا بلاتقلید؟(شمس الدین)
حضرت الحافظ(2):
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
25شوال 1401ھ کو جناب ماسٹر محمد خالد صاحب حضرت القاضی شمس الدین
|